Nemat Allah Ki Taraf Se Hai
نعمت اللہ کی طرف سے ہے

سنہ 1922 کی بات ہے۔ ترکی کی آزادی کی جنگ اپنے عروج پر تھی۔ یونانی فوج نے اناطولیہ کے بڑے حصے پر قبضہ کر رکھا تھا۔ ایک نوجوان جرنیل، مصطفیٰ کمال پاشا، جنگ کا نقشہ پلٹ رہا تھا۔ جب ترک فوج نے ازمیر واپس لے لیا تو پورے ترکی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ایک صحافی نے فتح کے بعد پاشا سے سوال کیا:
"یہ عظیم کامیابی کس کے نصیب میں لکھی تھی؟"
پاشا نے گردن اکڑاتے ہوئے کہا: "یہ میری حکمتِ عملی کا کمال ہے!"
بوڑھے مولانا رشید رضا، جو اس وقت وہاں موجود تھے، بس اتنا بولے: "بیٹا! جب اللہ کسی کو عطا کرتا ہے تو اس کا شکر لازم ہوتا ہے، غرور نہیں، غرور صرف عطا کو چھینتا ہے"۔
یہی کہانی ہر دور میں اور ہر معاشرے میں دہرائی جاتی ہے۔ ہم محرومی میں نصیب کو کوستے رہتے ہیں کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا، میں کیوں پیچھے رہ گیا، قسمت مجھ پر مہربان کیوں نہیں۔
لیکن جیسے ہی کامیابی دروازے پر دستک دیتی ہے، ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ دراصل عطا ہے، کرم ہے، فضل ہے اور ہم سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ سب ہمارے دماغ، محنت یا چالاکی کا نتیجہ ہے۔
قرآن ہمیں بار بار یاد دلاتا ہے: "وَمَا بِكُم مِّن نِّعُمَةٍ فَمِنَ اللّهِ"
(تم پر جو بھی نعمت ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہے۔)
لیکن ہم بھول جاتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو کہانی کا ہیرو بنا لیتے ہیں اور نصیب کو ایک خاموش تماشائی سمجھتے ہیں۔
تاریخ کے اوراق میں سے اشارے ملتے ہیں رومن سلطنت کے سنہری دور میں ایک روایت تھی کہ جب کوئی جنرل جنگ جیت کر روم میں داخل ہوتا، تو اس کے پیچھے ایک غلام کھڑا ہوتا اور ہلکی آواز میں کہتا: "یاد رکھو، تم بھی فانی ہو"۔
تاکہ غرور سر نہ چڑھ جائے اور انسان کو احساس رہے کہ کامیابی بھی ایک دن چھن سکتی ہے۔
ہماری اپنی تاریخ بھی اسی سبق سے بھری پڑی ہے۔
شاہجہان جب تاج محل تعمیر کروا رہا تھا تو اکثر کہا کرتا: "یہ میری محبت کا استعارہ ہے، دنیا میرا نام صدیوں تک یاد رکھے گی"۔
دنیا نے اسے یاد رکھا، لیکن محبت کی علامت کے طور پر نہیں بلکہ ایک عبرت کے نشان کے طور پر۔۔ کہ سب کچھ ہونے کے باوجود ایک باپ اپنی اولاد کے ہاتھوں قید میں ساری زندگی گزار گیا۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ محرومی انسان کو شکر اور صبر سکھاتی ہے لیکن کامیابی اکثر انسان کو غرور اور غفلت میں دھکیل دیتی ہے۔
ہم سمجھنے لگتے ہیں کہ ہماری محنت، ہماری ذہانت یا ہمارے فیصلے ہی سب کچھ ہیں حالانکہ کتنے ہی لوگ آپ سے زیادہ ذہین اور محنتی ہیں، لیکن نصیب کے ترازو میں ان کے پلڑے ہلکے رہ گئے۔
آج ہمیں اپنی زندگیوں میں ایک لمحہ رک کر سوچنا چاہیے: کامیابی نے ہمیں عاجزی سکھائی ہے یا غرور؟ ہم محرومی کے وقت نصیب کو برا بھلا کہتے رہے، لیکن عطا کے وقت کیا کبھی جھک کر شکر ادا کیا؟
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ جن لوگوں نے اپنی کامیابی کو اپنی محنت کا نتیجہ سمجھا، ان کا غرور ہمیشہ انہیں لے ڈوبا اور جنہوں نے ہر کامیابی کو عاجزی اور شکرکے سجدے میں بدل دیا، وہ آج بھی زندہ ہیں، دلوں میں اور کتابوں میں بھی۔
زندگی کا سبق سادہ ہے کہ نصیب کو الزام دینے سے کچھ نہیں ملتا اور کامیابی کو صرف اپنا کمال سمجھنے سے سب کچھ چھن جاتا ہے۔ شکر، صبر اور عاجزی ہی اصل سرمائے ہیں۔۔ یہی وہ تین ستون ہیں جن پر ایک پائیدار زندگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔

