Mustaqbil Qareeb Ka Mumkina Siasi Manzer Nama
مستقبل قریب کا ممکنہ سیاسی منظر نامہ
چناؤ سے پہلے جو لوگ کہتے تھے کہ ووٹ سے کیا ہوتا ہے ہونا تو وہی ہے جو ہر بار ہوتا آیا ہے اور جو "اگلے" چاہتے ہیں وہ زرا نیڑے نیڑے ہو جائیں۔
حالیہ چناؤ ہوا عوام نے بھرپور حصہ لیا اپنا غم و غصہ نکالا اور اس جماعت کے چمٹے توے، بینگن کو ووٹ ڈالے جس جماعت کے ہاتھ پاؤں باندھ کر لیڈران اور ورکرز کو اندر کرکے اور کیمپین پر خاموش پابندی لگا کر ایک نشان کے بغیر میدان میں پھینکا گیا تھا پھر پوری دنیا نے عجب منظر دیکھا یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ٹرن آؤٹ اتنا بہترین رہا کہ عالمی مبصرین حیران ہیں کہ آزاد امیدواروں نے اتنی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے انھیں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ عوام دو بڑی سیاسی جماعتوں سے اسقدر متنفر ہیں کہ انھیں قریب قریب مسترد کر چکے ہیں اور یہ ایک تلخ حقیقت بھی ہے آپ چاہیں تو کبوتر کی طرح اس سے نظریں چرا سکتے ہیں۔
ویسے تو ہر بار کے چناؤ پر ہمیشہ سوالیہ نشان ہی رہا ہے مگر میرے یار دوست کہتے ہیں کہ اس چناؤ کی بات ہی الگ ہے۔ حتیٰ کہ میرے ایک کٹر ن لیگی دوست بھی بہت حیران تھے کہ یار یہ ہو کیا رہا ہے۔ چلیں ہم وقتی طور پر مان لیتے ہیں کہ کوئی رزلٹ تبدیل نہیں کیا گیا اور دھاندلی نہیں ہو رہی بلکہ یہ ایک "صاف شفاف" الیکشن تھا۔ میری محدود سی سیاسی سوچ کے مطابق میاں نواز شریف اگر اس طرح کے سسٹم کو قبول کرکے ایک مخلوط ٹائپ لولی لنگڑی حکومت بنا لیتے ہیں تو یہ نہ صرف انکے لئے نقصان دہ ہوگا بلکہ ممکنہ طور پر اگلے تیس سال کیلئے وہ اپنی اگلی نسل کے سیاسی مستقبل کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔
اس کے پیچھے ایک دلچسپ حقیقت ہے۔ الیکشن نتائج کو دیکھتے ہوئے میں یہ بات پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ قومی حکومت کے نام پر مخلوط حکومت کی صورت میں اب ممکنہ طور پر میاں برادران کو ایک کھلے نیفے والی بڑی نیکر پہنائے جانے کیلئے تیار کیا جا رہا ہے۔ ایک شرارتی بچے کی شرارتوں سے تنگ آکر اس کے والدہ نے اسے کھلی نیکر پہنا دی تو اس بچے نے شرارتیں کرنا بند کر دیں کیونکہ وہ بچہ سارا دن اپنی نیکر سنبھالتا رہتا۔
اب ہوگا کیا کہ میاں صاحب کا ایک ہاتھ اپنے نیفے پر ہوگا اور دوسرے ہاتھ سے وہ اپنے دیگر امور سرانجام دیں گے۔ وہ اتحادیوں کو سنبھالنے کیلئے جب جب دوسرا ہاتھ استعمال کرنے کی کوشش کریں گے وہ نیکر گر جایا کرے گی پھر فٹا فٹ نیکر اوپر کریں گے تو کوئی دوسری مصیبت پہلے سے تیار ہوا کرے گی یہی سلسلہ چلتا رہے گا۔ لکھ کر رکھ لیجئے کہ یہ لی گئی حکومت ہمیشہ انکا پیچھا کرتی رہے گی اور انکے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ایک بدنما داغ کی طرح یاد رکھی جائے گی اور تاریخ کا حصہ رہے گی۔
اس کا آسان اور سادہ سا حل ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈر مل بیٹھ کر ایک اس پر غور حوض کریں کہ اب پاکستان مزید بحرانوں کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے حکومت اسی جماعت کو دی جائے جس کے ساتھ جمہور کی طاقت ہے۔
آج نہیں تو کل یہی کرنا پڑے گا۔ خان نے تو پھر بھی گرتے پڑتے بڑی نیکر کیساتھ ساڑھے تین سال نکال لئے تھے میاں صاحب ڈیڑھ سال بھی نہیں نکال پائیں گے کیونکہ اول تو ایک مضبوط اپوزیشن انکے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بنی رہے گی دوم یہ الیکشن اس یوتھ کے سینے میں نقش ہو چکا ہے جو سینہ بہ سینہ اگلی نسل کو بھی منتقل کرے گی۔ یقین مانیں میں نے آج ان تجزیہ نگاروں کو بھی اس چناؤ کا ٹھٹھہ اڑاتے سنا ہے جو کبھی مسلم لیگ ن کیخلاف بات سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔