Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Mumkina Wazir e Azam Aur Sadar e Pakistan

Mumkina Wazir e Azam Aur Sadar e Pakistan

ممکنہ وزیراعظم اور صدر پاکستان

صورتحال بہت دلچسپ ہوگئی ہے۔ مصدقہ زرائع کے مطابق میاں نواز شریف نے وزیراعظم بننے سے انکار کرتے ہوئے یہ "پگ" میاں شہباز شریف کے سر پر رکھ دی ہے۔ اب میاں شہباز شریف اور بلاول زرداری کے نام وزیراعظم کیلئے فیورٹ قرار دئیے جا رہے ہیں دیکھیں اقتدار کا ہما کس کے کندھے پر بیٹھتا ہے۔ ممکنہ طور پر نواز شریف صدر بن جائیں گے میں کچھ دن پہلے کسی دوست سے یہی بات کر رہا تھا۔

چھ ماہ سے چہ میگوئیاں ہو رہیں تھیں اور کچھ صحافی تو پورا زور دے کر کہہ رہے تھے کہ میاں نواز شریف مستقبل میں وزیر اعظم بن رہے ہیں۔ وہ اس قدر یقین سے کہہ رہے تھے انکے الفاظ سے لگتا تھا کہ "اوہناں دی گل ہوگئی اے"۔ میرے لئے یہ حیرت کی بات تھی کیونکہ میں یہ بات دو سال سے لکھتا آیا ہوں کہ میاں نواز شریف دوبارہ زندگی بھر وزیراعظم کبھی نہیں بنیں گے۔ مگر میں ان صحافی حضرات کی باتیں سن کر خاموش ہوگیا کہ جس ملک میں بزدار جیسا بندہ وزیر اعلیٰ رہ سکتا ہے وہاں نواز شریف سو بار وزیر اعظم بنایا جا سکتا ہے یہ بعید از امکان نہیں ہے۔

آج سے ساڑھے تین ماہ قبل میاں جی کے وطن واپس پدھارنے سے تین دن پہلے میں نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ وطن واپسی کے بعد میاں جی کے ساتھ پرینک ہو جانا ہے۔ میاں جی کو انکے ساتھیوں نے بہت غلط بریف کیا انھیں ڈی ٹریک کرنے والے انکے قریبی دوست ہی ہیں جنہوں نے انھیں یہ یقین دلایا کہ دو تہائی نہ سہی سادہ اکثریت تو ن لیگ کو مل ہی جائے گا۔ میاں صاحب کو یہ تمام یقین دہانیاں کروا دی گئی تھیں۔

آٹھ فروری کے روز میاں جی کی وکٹری سپیچ اور انکے وزیراعظم بننے کا پورا پلان تھا مگر نتائج کا رخ دیکھتے ہوئے بددلی سے انھوں نے تقریر کرنے سے انکار کرتے ہوئے گھر جانے کو ترجیح دی۔ اگلے ہی دن میاں شہباز شریف اور بلاول زرداری کے نام وزارت عظمیٰ کیلئے صحافتی حلقوں میں گردش کرنے لگے۔ یہ ووٹ کی طاقت ہے جس نے پورے سسٹم کو سر پکڑنے پر مجبور کر دیا۔

حامد میر سے لے کر ابصار عالم تک انتخابی نتائج پر پورے پاکستان کے صحافی تنقید کر رہے ہیں آج تک ملکی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ صحافیوں کی اکثریت نے سارے کے سارے انتخابی نتائج کو مشکوک قرار دیا ہو۔ حکومت جو بھی بنے میرے خیال سے یہ ریت کی دیوار ثابت ہوگی اور ایک ڈیڑھ سال سے زیادہ چل نہیں پائے گی اسکی وجہ یہ ہے کہ پچھتر قومی اسمبلی کی نشستوں کے نتائج چیلنج ہو رہے ہیں جن میں سے کم از کم پچاس نشستیں تحریک انصاف کو واپس ملنے کا قوی امکان ہے۔ ایسی صورت حال میں تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی۔ یہ "باندر کلے" کا کھیل چلتا رہے گا۔

ملک ایسے بندوبست کا اب متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس سارے کھیل میں ایک بات پر تمام صحافی یکسو ہیں کہ چناؤ کے نتائج نے تمام صحافیوں کو ششدر کر دیا ہے سارے کے سارے تجزیے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ حالیہ چناؤ دراصل ایک نظریے کی لڑائی تھی جس میں بہر حال جیل میں بیٹھا ایک قیدی فاتح ٹھہرا ہے۔ عوامی ووٹ کی طاقت اسے ہی کہتے ہیں۔

Check Also

PTI Ke Taboot Mein Akhri Keel

By Najam Wali Khan