Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Makalma, Muslihat Aur Shafafiyat Ke Darwaze Kholen

Makalma, Muslihat Aur Shafafiyat Ke Darwaze Kholen

مکالمہ، مصالحت اور شفافیت کے دروازے کھولیں

رات کی خاموشی میں جب سرحدوں پر توپوں کی گرج سنائی دیتی ہے اور دشمن کی آنکھیں ہماری سرزمین کو میلی نظروں سے گھورتی ہیں، تب قومیں معمول کی سیاست کو موقوف کرکے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسے نازک وقت میں کوئی بھی انتشار، اختلافِ رائے یا اندرونی تصادم دشمن کے لیے تقویت کا باعث بنتا ہے۔ جنگی یا نیم جنگی ماحول میں کسی بھی ذاتی یا سیاسی بیانیے سے پہلے وطن، اس کی سالمیت اور افواج کی عزت مقدم ہوتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں تحریک انصاف کے حامیوں اور قیادت، دونوں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور مقتدر حلقوں کو بھی بالغ نظری کے ساتھ نظرثانی کرنی ہوگی۔

یہ کہنا کہ تحریک انصاف حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں خدانخواستہ پاکستان کے مخالف کیمپ میں کھڑی ہے، ایک نہایت سنگین الزام ہے، جس کا کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں۔ پارٹی کے بانی اور اعلیٰ قیادت کی طرف سے واضح الفاظ میں اس نکتہ پر مؤقف سامنے آ چکا ہے کہ "ہم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں"۔ اس بیان کے بعد کسی بھی کارکن یا سوشل میڈیا صارف کی غیر سنجیدہ، غیر ذمہ دارانہ پوسٹس یا بیانات کو پوری جماعت پر چسپاں کر دینا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ غیر منطقی بھی۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ کسی بھی جماعت کا اصل چہرہ اس کی قیادت کے بیانات، پالیسیز اور موقف سے ظاہر ہوتا ہے، نہ کہ چند غیر تربیت یافتہ یا مشتعل کارکنوں سے۔ بلاشبہ کچھ عناصر دانستہ یا نادانستہ طور پر پاک فوج پر تنقید کرتے پائے گئے ہیں اور ایسے افراد کی بیخ کنی ضرور ہونی چاہیے۔ مگر اس کو جواز بنا کر پوری سیاسی جماعت کو کچل دینا، اس کے بیانیے کو ریاست مخالف قرار دینا اور اس کے لاکھوں کروڑوں ووٹرز کو شک کی نگاہ سے دیکھنا، دراصل اس وقت دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہوگا۔

اب اس معاملے کا ایک نفسیاتی پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جب ریاست، جو ایک ماں کی طرح اپنے شہریوں کے لیے تحفظ، اعتماد اور انصاف کی علامت ہونی چاہیے، خود اس کے اپنے بچوں عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں تو ان کے دلوں میں بے چینی، مایوسی اور بد اعتمادی جنم لینے لگتی ہے۔ جب اکثریت کی نمائندہ جماعت کے قائد کو طویل عرصے سے غیر معمولی مقدمات، میڈیا بلیک آؤٹ اور سیاسی تنہائی کا سامنا ہو تو کارکنان کے درمیان بداعتمادی کی فضا کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے مگر میں پھر بھی حب الوطنی پر بہرحال آنچ نہیں آنی چاہیے آخر کو یہ ملک ہم سب کا ہے۔ یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔

ہماری عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مقتدر حلقے اگر ملک میں پائیدار امن، ترقی اور سیاسی استحکام چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ تحریک انصاف کے مقدمات کو میرٹ پر سنا جائے۔ عدالتی فیصلے قانون اور آئین کے مطابق ہوں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں حقوق دئیے جائیں۔ اس وقت ملک کو کسی نئے سیاسی محاذ آرائی کی نہیں بلکہ مفاہمت، مکالمے اور اجتماعی حکمت کی ضرورت ہے۔

تحریک انصاف کے کارکنان، خصوصاً نوجوانوں کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ بیان بازی کی ایک حد ہونی چاہیے۔ جذبات میں کہے گئے جملے، وائرل کلپس، یا سوشل میڈیا پوسٹس نہ صرف پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں بلکہ ریاستی اداروں کے خلاف فضا بنا کر دشمن کے بیانیے کو تقویت دے سکتے ہیں۔ دشمن اسی تاک میں بیٹھا ہے کہ کب ہم اندر سے بکھریں، کب ہم اپنے ہی محافظوں پر انگلی اٹھائیں اور کب وہ ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھائے۔ اس لیے بیانات دیتے وقت سوچ سمجھ کر الفاظ چننے ہوں گے اور جذباتی نعروں کی بجائے قومی مفاد کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

آج اگر ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت اور ریاستی اداروں کے درمیان بداعتمادی کی خلیج بڑھ رہی ہے تو یہ وقت ہے کہ دانش مندی سے اس خلا کو پر کیا جائے۔ دونوں جانب سے مکالمہ، مصالحت اور شفافیت کے دروازے کھولے جائیں۔ انارکی، سیاسی انتقام اور ادارہ جاتی زورآزمائی کے راستے اگر چنے گئے، تو نقصان صرف ایک سیاسی جماعت کا نہیں ہوگا یہ نقصان اس ریاست کا ہوگا جسے ہم سب اپنی ماں کہتے ہیں۔

لہٰذا اب وقت ہے کہ سچ کو سچ کہنے کی جرات کی جائے، جذبات کو دلیل میں بدلا جائے اور ہر طرف سے مفاہمت کی شاخ زیتون آگے بڑھائی جائے۔ نہ کارکن دشمن ہیں، نہ ادارے ظالم۔ غلطی اگر کہیں ہو تو اس کی اصلاح ہونی چاہیے، لیکن نفرت کا بیج ہرگز نہ بویا جائے۔ یہ ملک ہم سب کا ہے اور اسے بچانے کے لیے ہم سب کو بلاتفریق ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam