Kya Hum Aik Zarayi Mulk Hain
کیا ہم ایک زرعی ملک ہیں
مجھے معلوم نہیں کہ وفاقی بجٹ میں ملکی زراعت پر بحث ہوئی یا نہیں مگر افسوس صد افسوس کہ بجٹ سے پہلے کسی بھی چینل پر کسی کسان رہنما کو بحث میں حصہ لینے کیلئے یا اپنے مسائل بیان کرنے کیلئے نہیں بلایا گیا۔ کسی کسان تنظیم کیساتھ کسی حکومتی عہدیدار نے کوئی مشورہ تک کرنا گوارا نہیں کیا۔ ہر چینل پر معیشت دان چھائے رہے مگر جو ملک کی خوراک کا ذمہ دار ہے ملکی معیشت کا پہیہ جس کے دم سے چلتا ہے اسکے مسائل جاننے کیلئے یا اسکی رائے لینے کی کسی کو توفیق تک نہیں ہوئی۔ گندم کے معاملے میں کسانوں کیساتھ جو زیادتی ہوئی اب تک بیچارے رُل رہے ہیں۔
کسان جب خوشحال ہوتا ہے تو پورا ملک خوشحال ہوتا ہے۔ وہ کسان جو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ کسان جو پورے پاکستان کیلئے غلہ اگاتا ہے۔ وہ کسان جو اس مٹی میں رُل کر اپنی اور اپنے بچوں کی روزی روٹی تلاش کرتا ہے۔ وہ کسان جس کی فصل پک کر تیار ہوتی ہے مگر اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ کب بکے گی اور کتنے میں بکے گی۔ بعض اوقات کسان کی فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے مگر اسے خریدنے کیلئے یا تو کوئی تیار ہی نہیں ہوتا اگر تیار ہو بھی تو اتنی کم قیمت پر فروخت ہوتی ہے کہ فصل پر اٹھنے والے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے زمین کا ٹھیکہ اور محنتانہ ملنا تو بہت دور کی بات ہے۔ اگر فصل کا ریٹ ٹھیک مل جائے تو بیٹی کی شادی کر دیتا ہے ورنہ لڑکے والوں کی منت ترلہ کرکے اگلی فصل کے بعد کی تاریخ لے لیتا ہے۔
اگر فصل اچھے ریٹ پر فروخت ہو جائے تو اپنے بچے کو کسی اچھے سکول کالج میں داخل کروا دیتا ہے ورنہ کوئی کام دھندہ ڈھونڈنا ہی اسکے بچے کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ اگر فصل کا ریٹ اچھا مل جائے تو اس کے بچوں کو نئے کپڑے اور جوتے مل جاتے ہیں ورنہ صبر شکر کرکے کپڑے اور جوتوں کی خریداری اگلے سال پر ڈال دیتے ہیں۔ کسان کی عید، شادی و غمی کا انحصار بھی اسکی فصل پر ہوتا ہے انتہائی غیر یقینی کی زندگی گزارتا ہے۔ فصل ہی کسان کی لائف لائن ہے۔
اگر اللہ پر توکل دیکھنا ہو تو ایک کسان کو دیکھ لیجئے جو بیج کو مٹی میں ڈال کر سائیڈ پر بیٹھ جاتا ہے اس سے پودا نکالنا، پھل پھول لگانا مالک کی مرضی ہے وہ لگائے یا نہ لگائے۔ میں اسی کسان کی بات کر رہا ہوں جس کو خود کوئی بچت ہو یا نہ ہو مگر فرٹیلائزر اور پیسٹی سائیڈز انڈسٹری سے اربوں نہیں کھربوں روپے ٹیکس کی مد میں جس کے خون پسینے کی کمائی سے حکومتی خزانے میں جمع ہوتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ بجٹ میں اس کسان کے ریلیف کیلئے سودی قرضے کے سوا سبسڈی کی ایک پالیسی بھی نہیں بنائی گئی۔ مجھے یہ کہتے ہوئے شرم محسوس ہو رہی ہے کہ میں اس ملک کے کسان کی بات کر رہا ہوں جس ملک کو ایک زرعی ملک بھی کہا جاتا ہے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے۔