Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Khwaja Saraon Aur Police Tasadum Ke Haqaiq

Khwaja Saraon Aur Police Tasadum Ke Haqaiq

خواجہ سراؤں اور پولیس تصادم کے حقائق

کل سارا دن سوشل میڈیا پر یہی موضوع زیرِ بحث رہا اور کھاریاں کا علاقہ دن بھر پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ دفتری مصروفیات بھی تھیں اور مجھے حقائق کا چونکہ علم نہ تھا لہذا میں نے چند مہربان دوست رپورٹرز کے زمہ یہ کام لگایا تو انھوں نے چونکا دینے والے حقائق مجھے بتائے۔

وقوعہ سے ایک رات پہلے یعنی ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ایک خواجہ سرا اور اسکا دوست بائیک پر جا رہے تھے کہ پولیس نے انھیں روکا اور تھانے لے آئے۔ پولیس کے بقول انھوں نے شراب پی رکھی تھی۔ چند گھنٹے تھانہ رہنے کے بعد صلح صفائی یا کسی بھی دیگر طریقہ سے معاملہ رفع دفع ہوا تو انھیں چھوڑ دیا گیا۔ وہ خواجہ سرا تھانے سے سیدھا اپنے گرو کے پاس گیا اور سارا واقعہ اسکے گوش گزار کیا ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ پولیس نے نہ صرف انکی موٹر سائیکل روک کر سڑک پر اسکے ساتھ بدتمیزی کی بلکہ تھانے لیجا کر بھی نازیبا حرکتیں کی۔

پولیس سے ہٹ کر یہ تو خیر من حیث القوم ہمارا رویہ ہے کہ ہم خواجہ سراؤں کو ہر جگہ بہت ہی حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ خیر گرو نے اپنے تنظیمی عہدہ داروں سے بات کی اگلے ہی دن تیس کے قریب خواجہ سراؤں نے پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول دیا۔ انھوں نے نہ صرف پولیس اسٹیشن کی عمارت پر پتھراؤ کیا بلکہ پولیس اسٹیشن کے اندر گھس کر تھانہ کی میز کرسیاں اور دیگر سامان اٹھا کر باہر سڑک پھینک دیا۔ پولیس والوں کیساتھ گالم گلوچ اور گتھم کتھا بھی ہوئے جس سے طرفین کے لوگ زخمی ہوئے بعد ازاں مرہم پٹی کیلئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ جب یہ معاملہ پولیس کے اعلیٰ حکام کے نوٹس میں آیا تو انھوں نے بیچ میں پڑ کر صلح کروا کر معاملہ کو نمٹا دیا۔

اس واقعہ نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ پہلی بات کہ رات کے وقت خواجہ سرا کو کیوں روکا گیا؟ اگر تو کوئی لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ تھا اسے سامنے لایا جاتا۔ اگر وہ شراب کے نشہ میں دھت تھے انکے خلاف غل غپاڑہ کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کیوں نہ کی گئی؟ اگر کی گئی تو تاحال ایف آئی آر منظر عام پر کیوں نہ لائی گئی؟ ویسے عمومی طور پر ہماری پولیس کا رویہ کیا ہے یہ آپ لوگ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ خیر دوسرا پہلو یہ ہے کہ آیا خواجہ سرا کیساتھ واقعی بدتمیزی ہوئی ہے؟ یا یہ محض ایک الزام ہے۔ ہم نے دیکھا تو نہیں ہے مگر آپ احباب بہت بہتر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تھانہ لیجا کر کچھ ہوا تھا یا نہیں۔

برا نہ منائے گا من حیث القوم ہم سب کا یہی رویہ ہے کہ ہم نے اپنی سوسائٹی میں خواجہ سراؤں کیساتھ ہمیشہ سے بہت حقارت آمیز رویہ روا رکھا ہے۔ پولیس ایک فورس ہے وہ ہر پاکستانی شہری کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے لہذا پولیس پر عام عوام کی نسبت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے بالکل اسی طرح جیسے اگر عام آدمی قانون کی خلاف ورزی کرے اس کی نسبت وکیل پر زیادہ تنقید ہونی چاہیئے کیونکہ اس کے بارے یہی تاثر ہے کہ وہ عام آدمی سے زیادہ قانون کی سمجھ رکھتا ہے۔ کُل ملا کر بات اتنی سی ہے کہ بدقسمتی سے ہم لوگ خواجہ سراؤں کو تیسرے درجے کے شہری بھی نہیں سمجھتے اس پر کچھ دن بعد میں اپنی ایک تحریر شئیر کروں گا انشاءاللہ۔

تیسرا اور سب سے اہم سوال کیا اس سب کے باوجود خواجہ سراؤں کا مل کر پولیس اسٹیشن پر دھاوا بول دینا اور پتھراؤ کرنا پولیس کو گالیاں دیتے ہوئے ان کے کپڑے پھاڑنا تھانے کا سامان باہر پھینکنا کسی صورت بھی جسٹیفائی کرتا ہے؟ وہ کیا محرکات تھے جنہوں نے خواجہ سراؤں کو اس انتہائی قدم پر مجبور کیا؟ کیا سرکاری مقامات اور وہ بھی فورسز کا دفتر ہمارے لئے مقامات مقدسہ کا درجہ نہیں رکھتے؟ کیا یہ واقعہ سانحہ 9 مئی کے جناح ہاؤس پر حملہ سے کم ہے؟ وہاں بھی ایک سرکاری عمارت پر حملہ ہوا تھا اور یہاں بھی سرکاری املاک کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔

پولیس ایک اہم ادارہ ہے جس کا نام سامنے آتے ہی عوام کو تحفظ کا احساس ہونا چاہیے مگر ایسا کیوں نہیں ہے؟ وہ کیا محرکات ہیں جنکی وجہ سے ہمیں اسکا احساس نہیں ہو پاتا؟

اگر ہم ان سوالات کے جوابات تلاش کرکے انکا حل تلاش کر لیتے ہیں تو ہی ہم ایسے واقعات کا سد باب کر پائیں گے ورنہ کب تک ہم ایسے واقعات سے دنیا بھر میں اپنی اور اپنے اداروں کی جگ ہنسائی کرواتے رہیں گے؟ محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام کو بھی یہ مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا۔

Check Also

Extramarital Affairs

By Amer Abbas