Khuda Ke Insan Bano, Insano Ke Khuda Nahi
خدا کے انسان بنو، انسانوں کے خدا نہیں

وہ گلی کے نکڑ پر زیر تعمیر گھر کے سامنے بیٹھا مٹی سے کھیلتا بچہ شاید ہم سب کو آئینہ دکھا رہا تھا۔ ابھی چند دن پہلے ہی کی بات ہے۔ آگ برساتی دھوپ میں کپڑوں سے بےنیاَز مختصر سی نیکر سے صرف اپنا ستر ڈھانپے وہ معصوم سا دس بارہ سالہ بچہ چپ چاپ اپنے کام میں مصروف تھا۔
اس کی معصوم انگلیوں سے بنے ہوئے خاکی بت، پل بھر میں ٹوٹ جاتے۔
وہ ہنستا اور پھر سے نئے بت بنانا شروع کر دیتا۔
میں نے پوچھا، "یہ کیا بنا رہے ہو بیٹے؟"
اس نے بڑی معصومیت سے کہا: "خدا"۔
میری سانسیں رک گئیں۔ میں چونک کر پوچھ بیٹھا۔
"بیٹے! یہ تو مٹی کا ہے۔۔ "
بچہ ہنسا، "ہاں انکل! آپ بڑے لوگ بھی تو مٹی کے خدا ہی ہیں۔۔ کسی کو انسان نہیں سمجھتے! " اس کم سن بچے کے منہ سے اتنی بڑی بات سن کر میں حیران پریشان لاجواب سا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ بچہ پھر یوں گویا ہوا۔ "میرے امیر چاچا نے میرے ابا کو مار مار کر نکال دیا اور جائیداد میں سے ہمارا حصہ ہڑپ کر گیا۔ میرے چاچا کو آپ جیسے وکیل نے بچا لیا۔ میرا ابا آج دیڑھی لگاتا ہے اور چاچا ہسپتال کے ٹھنڈے کمرے میں فالج کا علاج کروا رہا ہے"۔
یہ تلخ سچ ہے کہ ہم سب نے خود کو اپنے اپنے دائروں کا خدا سمجھ رکھا ہے۔ کوئی عقیدے کا خدا، کوئی زبان کا، کوئی رنگ کا، کوئی مرتبے کا، کوئی علم کا اور کوئی محض زورِ بازو کا!
ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ ہم خدا کو نہیں مانتے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہم "خود" کو خدا ماننے لگے ہیں۔
کسی کا لباس، چال، بات، عقیدہ، شکل، رائے اگر ہم سے مختلف ہو، تو ہم فیصلہ صادر کرنے میں زرا تامل نہیں کرتے:
یہ جنتی نہیں ہو سکتا!
یہ مومن نہیں ہو سکتا!
یہ انسان بھی نہیں ہو سکتا!
خدا کی زمین پر انسانوں کی خدائی ہے۔
کبھی مسجد کا مولوی ایمان کا خدا ہو جاتا ہے۔
کبھی میڈیا پر بیٹھا تجزیہ کار سچ اور جھوٹ کا خدا بن بیٹھتا ہے۔ کبھی طاقتور افسر ماتحتوں کے نصیب کا خدا بن جاتا ہے اور کبھی سوشل میڈیا پر بیٹھا عام شخص کسی انسان کی عزت کا جلاد بن جاتا ہے۔
ہم فیصلہ سناتے ہیں۔
ہم فتوے لگاتے ہیں۔
ہم جنت اور دوزخ کے دروازے کھولتے اور بند کرتے ہیں حالانکہ خود ہمارے ہاتھ لرز رہے ہوتے ہیں اور دل میں اندھیرے چھپے ہوتے ہیں۔
کسی جگہ ایک حکایت پڑھی۔ ایک گاؤں میں ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ خدا ہے۔ لوگ ہنسے، برا بھلا کہا، مگر وہ بضد رہا۔
آخر گاؤں کے بزرگ نے اسے بلا کر کہا: "اگر تو خدا ہے تو آسمان سے بارش برسا، سورج کو پلک جھپکتے غروب کر یا زمین سے پھول اگا"۔
وہ ہنس کر بولا "یہ سب میرے بس میں نہیں۔۔ مگر میں لوگوں کے دل بدل سکتا ہوں، ان کی تقدیر طے کر سکتا ہوں، ان کی بخشش یا ہلاکت کا فیصلہ کر سکتا ہوں! "۔
بزرگ رو پڑے۔
"افسوس! تو بہت بدتر ہے جو انسانوں کے ضمیر پر قابض ہونے چلا ہے؟"
لب لباب یہی ہے کہ خدا کے انسان بنو، انسانوں کے خدا نہیں۔
خدا نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا لیکن اشرف بننے کے شوق میں ہم نے انسانیت کو پیچھے چھوڑ دیا۔
ہم بھول گئے کہ خدا صرف "رب" ہے جو پالنے والا، معاف کرنے والا، پردہ پوش، حکمت والا ہے۔
اور ہم؟
ہم تو نہ کسی کا رزق دے سکتے ہیں۔
نہ سانس روک سکتے ہیں۔
نہ کسی کو ماضی دے سکتے ہیں، نہ مستقبل چھین سکتے ہیں۔
ہم صرف انسان ہیں۔
تو انسان بن کر جیو!
سچ یہ ہے۔۔
اگر ہم خدا کے سچے بندے بن جائیں۔
تو ہمیں کسی پر خدائی جتانے کی حاجت نہ ہو۔
اگر ہم رسولِ اکرم ﷺ کی امت بن جائیں۔
تو ہمیں کسی پر فتویٰ لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔
اگر ہم صرف اتنے ہوجائیں کہ کسی کو جینے دیں۔
کسی کو معاف کر دیں، کسی کو سمجھنے کی کوشش کریں تو شاید یہی خدا کے انسان ہونے کا پہلا قدم ہو۔
انسان کو انسان رہنے دو، خدا بننے کی خواہش دراصل اس کمزوری کی علامت ہے جو ہمیں اپنے آپ سے ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ دوسروں پر اختیار پا کر ہم اپنی ادھوری شخصیت مکمل کر لیں گے۔
نہیں!
اصل تکمیل تب ہے۔
جب تم اپنے جیسا دکھنے والے دوسرے انسان کو بھی اتنی ہی محبت، عزت اور گنجائش دو۔
جتنی تم اپنے لیے چاہتے ہو۔
بس اتنا کافی ہے۔۔
کہ ہم خدا کے انسان بنیں۔
انسانوں کے خدا نہیں۔