Kahani Muhammad Sami Ki
کہانی محمد سمیع کی

کراچی کی کچی بستیوں میں ایک بچہ پلا بڑھا۔ نام تھا محمد سمیع۔ باپ کے انتقال کے بعد گھر کا سہارا ٹوٹ گیا۔ ماں نے سلائی مشین پر دن رات دھاگے توڑے مگر غربت کے اندھیروں میں امید کا چراغ بجھتا نظر آ رہا تھا۔ یہ بچہ اکثر گلی کی نکر پر لگے بلب کے نیچے بیٹھ کر پڑھا کرتا، کبھی موم بتی کی روشنی میں کتابیں کھنگالتا۔ استاد نے ایک دن ٹیسٹ کے دوران اس کی ذہانت دیکھی اور اسکول کی سفارش پر اسے ایک مقامی اسکالرشپ ملا۔ اسی ایک موقع نے اس کی دنیا بدل دی۔
سمیع نے دن رات پڑھا، کالج میں نمبر بنائے، یونیورسٹی میں سائنس کے میدان میں سب کو حیران کیا۔ حکومت کے ایک اسکالرشپ پروگرام کے تحت اسے بیرونِ ملک پڑھنے کا موقع ملا اور آج وہ جرمنی کی ایک لیبارٹری میں جدید توانائی کے شعبے میں تحقیق کر رہا ہے۔ وہی یتیم بچہ جو کبھی کتابوں کے پیسے کے لیے جوتے پالش کرتا تھا، آج دنیا کے بڑے سائنسدانوں کے ساتھ نئی ایجادات میں شریک ہے۔
یہ کہانی صرف ایک بچے کی نہیں، یہ بتاتی ہے کہ موقع زندگی کا سب سے بڑا تحفہ ہے۔ دنیا کی تاریخ میں جتنے بھی بڑے دماغ گزرے ہیں، ان میں سے اکثر کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا۔ آئن اسٹائن جرمنی میں ایک معمولی کلرک کا بیٹا تھا، اسٹیفن ہاکنگ کو یونیورسٹی میں اپنی وہیل چیئر پر گھسیٹا جاتا تھا اور نیوٹن ایک کسان کے گھر میں پیدا ہوا تھا۔ مگر ان سب کو موقع ملا اور انہوں نے اس موقع کو اپنی قسمت کا دروازہ بنا لیا۔
سائنس بھی یہ کہتی ہے کہ انسانی دماغ میں تقریباً 86 ارب نیورانز ہوتے ہیں۔ ماہرینِ تعلیم کے مطابق ذہانت کا فرق غریب اور امیر بچوں میں زیادہ نہیں ہوتا، اصل فرق ماحول اور مواقع کا ہے۔ ایک تحقیق (UNESCO Report 2022) کے مطابق دنیا بھر میں اگر غریب بچوں کو بھی معیاری تعلیم ملے تو عالمی غربت کی شرح 42 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔
ہمارے ہاں بھی چند اقدامات کیے گئے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے تحت ہزاروں طلبہ کو بیرونِ ملک اسکالرشپس دی گئیں جنہوں نے واپس آ کر ملک کی خدمت کی۔ پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ (PEEF) کے ذریعے لاکھوں بچے اسکول اور کالج پہنچے۔ یہ اقدامات ثابت کرتے ہیں کہ جب ریاست تعلیم پر سرمایہ لگاتی ہے تو پورے معاشرے کی سمت بدل جاتی ہے۔
اسلامی تاریخ بھی اس حقیقت پر گواہ ہے۔ حضرت عمرؓ کے دور میں جب بیت المال سے یتیم بچوں اور ضرورت مند طلبہ کو وظیفے ملنے لگے تو عام گھرانوں کے بچے بھی بڑے عالم اور قاضی بن کر نکلے۔ یہی وہ موقع تھا جس نے مسلمانوں کو دنیا کی علمی قیادت بخشی۔
دنیا کی کامیاب ترین اقوام نے بھی یہی اصول اپنایا۔ فن لینڈ، جسے آج دنیا کا بہترین تعلیمی نظام رکھنے والا ملک کہا جاتا ہے، نے 1970 کی دہائی میں فیصلہ کیا کہ تعلیم سب کے لیے یکساں ہوگی۔ وہاں غریب اور امیر بچے ایک ہی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ چھوٹا سا ملک آج ٹیکنالوجی، تحقیق اور فلاح میں سب سے آگے ہے۔
ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ معاشرے کا اصل سرمایہ بچے ہیں اور ان بچوں کو مواقع دینا حکومت، اداروں اور ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر ایک یتیم بچہ بین الاقوامی سائنسدان بن سکتا ہے تو سوچیں، ہمارے ملک کے لاکھوں بچے اگر اسکالرشپ، کتابیں اور اسکول کی سہولتیں پا جائیں تو کیا کمال نہ دکھا سکیں گے؟
یاد رکھیے، غربت ذہانت کو نہیں مار سکتی، مگر مواقع کی کمی ضرور اسے دفن کر دیتی ہے۔ قومیں اسکولوں میں بنتی ہیں، نہ کہ محلوں میں۔
اور یہی اصل حقیقت ہے کہ: "موقع ملے تو قسمت بھی بدل جاتی ہے"۔

