Joote Marne Walon Ki Tadad Barhai Jaye
جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھائی جائے
بچپن میں علامہ اقبالؒ کے مضمون میں پڑھا کرتے تھے "علامہ اقبالؒ نے برصغیر کے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا"۔ اس وقت ٹیچر کے بتانے کے باوجود سمجھ نہیں آتا تھا کہ خوابِ غفلت کیا ہوتا ہے کیونکہ ذہن ابھی کچے تھے۔ پھر بڑی کلاسوں میں گئے تو اساتذہ نے اچھے سے اس کا مفہوم بتایا۔ آج بھی ہم خوابِ غفلت میں سوئی ہوئی اس قوم کی عملی تصویر بھی دیکھ رہے ہیں۔
حیرت ہے کہ کچھ لوگ ابھی بھی موجودہ حکومت کی پیدا کردہ مہنگائی کا دفاع کر رہے ہیں۔ عمران خان ہر پندرہ دن بعد پٹرولیم مصنوعات کی دو روپے، تین روپے، پانچ روپے بھی قیمت بڑھاتا تھا تو مجھ سمیت سینکڑوں لکھنے والے اپنی تنقیدی تحریروں سے فیس بک کی دیواریں اور اخبار کے اوراق کالے کر دیتے تھے کیونکہ عمران حکومت میں مہنگائی پر میں نے خود بہت تنقید کی تھی میرے کالم اور دیگر تحاریر آج بھی اخبارات، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔
نیوز چینلز پر تمام اینکرز عمران خان کے خلاف گلا پھاڑ پھاڑ کر منہ سے جھاگ اڑاتے اتاولے ہوئے ہوتے تھے۔ یاد رہے کہ عمران خان نے اپنے پورے ساڑھے تین سال کے عرصے میں کُل ملا کر اڑتیس روپے فی لیٹر اضافہ کیا تھا اور ہم نے اسے لتاڑ کر رکھ دیا تھا۔ اب موجودہ حکومت کی جانب آتے ہیں جس نے ایک ہفتے میں پٹرول کی قیمتوں میں اکٹھا ساٹھ روپے اضافہ کیا ہے جی ہاں اسے مریم اورنگزیب کی ٹون میں ڈیلے پھاڑ کر پڑھیں "پورے ساٹھ روپے فی لیٹر"۔
حیرت ہے کہ کچھ لوگ اب اس ہوش ربا مہنگائی کے حق میں مختلف توجیہات پیش کر رہے ہیں۔ باقی لوگ مکمل طور پر خاموش ہیں۔ یاد رکھیں کہ قومیں ظالم کے ظلم سے برباد نہیں ہوتیں بلکہ مظلوم کی مجرمانہ خاموشی سے برباد ہوتی ہیں۔ خوابِ غفلت اسی کو کہتے ہیں۔ اب سر سید احمد خان اور علامہ اقبالؒ تو آنے سے رہے۔ موجودہ والدین کو اتنی فرصت ہی نہیں کہ ہم بہترین تربیت کر کے ڈھنگ کے بچے اس قوم کو دے سکیں۔ لہٰذا فی الحال خوابِ غفلت ہی ہمارا مقدر ہے۔
گزشتہ روز پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ کی افواہ کیا اُڑی گویا پورا ملک ہی اپنی گاڑیوں کے ساتھ سڑکوں پر نکل آیا۔ آپ کیا سمجھے کہ یہ لوگ احتجاج کرنے گھروں سے نکلے تھے؟ ارے نہیں ایسا نہیں ہے جناب۔ یہ لوگ کوئی احتجاج کرنے نہیں نکلے تھے بلکہ پٹرول مزید مہنگا ہونے کی وجہ سے ایک دن پہلے اپنی ٹینکیاں فل کروانے کیلئے گھروں سے نکلے تھے جس کی وجہ سے ملک بھر کی کئی سڑکیں بلاک ہو گئیں اور بہت سے پٹرول پمپوں پر چھوٹی بڑی گاڑیوں کی لمبی قطاریں دیکھنے کو ملیں۔
وہ پٹرول جو دو ماہ قبل 150 روپے فی لیٹر مل رہا تھا اب وہی 210 روپے فی لیٹر پٹرول کے حصول کیلئے چار چار گھنٹے طویل لائنوں میں لگ کر عوام کو جس اذیت کا سامنا کرنا پڑا وہ ناقابل بیان ہے۔ میڈیا پر خبر چل رہی تھی جس میں لوگ اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ بعض پٹرول پمپ مالکان نے تو پٹرول دینے سے ہی انکار کر دیا اور غریب عوام کو جوتے کھلائے۔ اوہ سوری۔ پٹرول ڈلوائے بغیر ہی واپس جانا پڑا۔
آج کسی وجہ سے پٹرول کی قیمتیں تو مزید نہ بڑھیں اور وہی 210 روپے فی لیٹر ہی مل رہا ہے مگر اس قوم کے مزاج کا پتہ چل گیا ہے۔ یہ قوم حکومت وقت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہمیں قیمتیں بڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بس جوتے مارنے والے سنتریوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ باری جلدی آ جائے اور لمبی قطاروں میں لگ کر ہمارا وقت ضائع نہ ہو۔