Jawab e Shikwa
جواب شکوہ
میرے ایک کلائینٹ سرکاری محکمہ میں نائب قاصد ہیں۔ ماشاءاللہ انکے تین بچے ہیں جنکی عمریں چار سے دس سال ہیں۔ کچھ عرصہ سے بہت پریشان ہیں۔ کہتے ہیں کہ زندگی بہت مشکل ہوئی پڑی ہے۔ صبح دفتر جاتا ہوں، اپنے صاحب کے آفس کی ساری ذمہ داری میری ہے۔ انکی سرکاری ڈاک وصول کرنا اور بھیجنا میری ذمہ داری ہے۔ بعض اوقات دفتر کا جھاڑو پونجھا بھی میں ہی کرتا ہوں۔ دفتر آئے مہمانوں کی آؤ بھگت اور چائے پانی پوچھنا بھی میری ذمہ داری ہے۔ اگر کہیں کمی بیشی ہو جائے تو صاحب کافی غصہ ہوتے ہیں۔ دفتر کے دروازے کے سامنے بیٹھ کر ہر مہمان سے اسکا تعارف لے کر اندر بھیجنا ہوتا ہے بعض لوگ بغیر بتائے اندر گھس جاتے ہیں مگر صاحب مجھ پر ناراض ہو کر بہت جلی کٹی سناتے ہیں۔
اپنے دفتر کے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے دوسرے سرکاری دفاتر میں سارا دن جانا آنا پڑتا ہے۔ رشوت وغیرہ میں نہیں لیتا گزارا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ آئے روز گھر میں جھگڑا رہتا ہے دو کمروں والا چھوٹا سا مکان ہے اسکا کرایہ دینا بھی مشکل ہوتا ہے دودھ کے بل وغیرہ۔ بہت پریشانی ہے بیگم کو اکثر صبر و تحمل کی تلقین کرتا ہوں مگر وہ جھگڑا کرتی ہے۔ انھی باتوں کی وجہ سے اکثر ناراض رہتی ہے اور دو دو دن بات نہیں کرتی۔ لڑتے وقت کسی رشتے کا لحاظ نہیں کرتی۔ اب اگر میری ماں مجھے ملنے میرے گھر آتی ہے تو ایک دن سے زیادہ برداشت نہیں کرتی مجھے لگا لگا کر باتیں بھی کرتی ہے میری امی کو سب پتہ ہے اب وہ میرے پاس بہت کم آتی ہے بس فون پر ہی مجھ سے اور پوتے پوتیوں سے بات کر لیتی ہے۔ دوسری جانب جب کبھی بیگم کے رشتے دار آجائیں تو انکی خوب خاطر مدارت کرتی ہے اور کافی خرچہ ہو جاتا ہے میرے بچے بھی برگر شوارمے کی عیاشی کر لیتے ہیں۔
کبھی کبھار مجھے بھی بیگم پر غصہ آ جاتا ہے تو بیگم ناراض ہو کر میکے چلی جاتی ہے پھر مشکل سے منا کر لاتا ہوں۔ اب معمول یہ ہے کہ دفتر سے رات گئے واپس آتے ہی توتکار شروع ہو جاتی ہے آج گھر میں یہ نہیں ہے آج گھر میں وہ نہیں ہے۔ یہ اب روز کا معمول بن چکا ہے جس نے مجھے بیمار کر دیا ہے۔ حالات میرے بس سے باہر ہو گئے ہیں تینوں بچے سکول جاتے ہیں ان کے اخراجات اٹھانا میرے بس میں نہیں رہا۔ تین ماہ پہلے بیگم کی ایک رشتے دار کی شادی تھی۔ جانے آنے، کپڑوں اور ملنے برتنے پر چالیس ہزار روپے کل خرچہ آیا تقریباً تین حصے تنخواہ ایک شادی پر نکل گئی باقی مہینہ قرضہ اٹھا کر گزارا کیا مگر میری بیوی میری پریشانی کو نہیں سمجھ رہی۔ تنخواہ پر تین بچوں کو پالنا بہت مشکل تھا لہٰذا میں نے پارٹ ٹائم آٹھ ہزار روپے تنخواہ پر گیٹ کیپر کی پرائیویٹ نوکری کرلی۔
پرائیویٹ دفتر والے صاحب جلدی چھٹی نہیں دیتے رات دس بجے گھر پہنچتا ہوں۔ گھر جاتے ہی پریشانی ہوتی ہے۔ میں کوئی سگریٹ نوشی یا پان کا نشہ نہیں کرتا۔ دفتر جانے آنے کا پانچ ہزار روپے ماہانہ خرچہ رکھ کر باقی بیگم کو دے دیتا ہوں۔ روز روز کی چخ چخ سے بہت تنگ آ گیا ہوں۔ کافی عرصہ سے نیند کی کمی، جسم درد اور آنکھوں میں درد رہتا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ بلڈ پریشر اور شوگر تھوڑا بڑھ گئے ہیں دوا لو، نیند پوری کرو اور خوراک کا پرہیز کرو۔ میں تو کولہو کا بیل بن چکا ہوں صبح شام اور رات پریشانی ہی پریشانی ہے۔ میں بہت پریشان ہوں بیگم کو کہتا ہوں کہ تھوڑے پیسوں میں کسی طریقے سے مینج کرو مگر بیگم کا رویہ ہی میری ساتھ ٹھیک نہیں ہے وہ میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ کئی بار چھوڑنے کا سوچا مگر بچوں کا خیال آتے ہی دل سہم جاتا ہے۔