Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Jahan Dilon Ko Jora Jata Hai

Jahan Dilon Ko Jora Jata Hai

جہاں دلوں کو جوڑا جاتا ہے

مولانا طارق جمیل وہ نام جو صدیوں سے جمی برف جیسے سخت دلوں کو پگھلاتا آیا ہے۔ ان کی زبان سے نکلے نرم و نازک الفاظ، ان کے چہرے پر چھلکتی عاجزی اور ان کے بیان میں سمویا ہوا درد یہ سب کچھ دل کو چھو لینے والا ہے۔ بلاشبہ وہ ہمارے عہد کے ممتاز ترین مبلغین میں سے ہیں، جن کے ہاتھ پر ہزاروں نہیں، لاکھوں گناہ گار تائب ہوئے۔ ان کی مجالس میں علماء بھی بیٹھے، فنکار بھی، سیاستدان بھی اور عام لوگ بھی۔ وہ منبر سے اتر کر دل میں اترنے والے شخص ہیں۔

اسی طرح تبلیغی جماعت جس کی بنیاد سادگی، اخلاص اور "اللہ کے راستے میں نکلنے" کے فلسفے پر رکھی گئی، ایک ایسی تحریک ہے جو خاموشی سے دلوں کی زمین کو نرم کرتی ہے۔ مسجد کے فرش پر سو کر، ایک دوسرے کے جوتے سیدھے کرکے اور دنیاوی شہرت سے کوسوں دور رہ کر یہ جماعت ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں روحوں کی تربیت ہوتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج وہی دو نرمی اور محبت کے نمائندہ، ایک دوسرے سے خفا نظر آتے ہیں۔

یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ مولانا طارق جمیل تبلیغی جماعت کے بطن سے ہی پیدا ہوئے۔ وہ انھی کے ماحول میں پروان چڑھے، انھی کی زبان، انھی کا انداز اور انھی کے منہج سے ان کا وعظ نکھرا۔ لیکن وقت کے ساتھ ان کے دائرہ اثر میں وسعت آئی۔ وہ روایتی حلقوں سے نکل کر مین سٹریم میڈیا، تعلیمی اداروں اور سیاسی و سماجی حلقوں تک جا پہنچے۔ یہی وسعت شاید کچھ لوگوں کو کھٹکنے لگی۔

تبلیغی جماعت کا گلہ ہے کہ مولانا ان کی جماعت کے منہج سے ہٹ گئے جبکہ مولانا کا کہنا ہے کہ وہ تو اصل روح کے ساتھ جڑے رہے، صرف دائرۂ کار کو وسیع کیا۔

یہاں اصل سوال یہ نہیں کہ حق پر کون ہے، سوال یہ ہے کہ حق کی دعوت کو نقصان کس سے ہو رہا ہے؟

دنیا پہلے ہی دین سے دور ہو رہی ہے۔ الحاد، سیکولرزم، فحاشی اور فکری انحراف کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ایسے میں اگر اہلِ دین ہی ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھانے لگیں تو عام شخص کس کی طرف رجوع کرے گا؟

نہ مولانا طارق جمیل کامل ہیں، نہ تبلیغی جماعت۔ دونوں ہی سے خطا ممکن ہے۔ لیکن ان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی جگہ طریقے میں فرق آ گیا تو کیا لازم ہے کہ اس اختلاف کو افتراق میں بدل دیا جائے؟

کیا ہی بہتر ہو کہ تبلیغی جماعت کے بزرگوں اور مولانا طارق جمیل جیسے مخلص افراد کے درمیان افہام و تفہیم کا در کھلے۔ بات ہو، مشورہ ہو، خیر خواہی کے ساتھ اصلاح ہو۔

اگر مولانا کے طرزِ تبلیغ میں کوئی خامی ہے تو بزرگانِ جماعت اصلاح کریں مگر باعزت طریقے سے۔

اگر جماعت کے طرزِ تنقید میں سختی ہے تو مولانا بھی صبر اور حکمت سے جواب دیں، جیسا کہ ہمیشہ ان کا شیوہ رہا ہے۔

یہ وقت لڑنے جھگڑنے کا نہیں، امت کو جوڑنے کا ہے۔

ہمیں ایسے مبلغین کی ضرورت ہے جو منبر سے زیادہ دلوں پر حکومت کریں۔ ہمیں ایسی جماعتوں کی ضرورت ہے جو چہروں سے نہیں، دلوں سے پردے ہٹائیں اور ہمیں ایسے ماحول کی ضرورت ہے جہاں تفرقہ نہیں، اتفاق کی خوشبو ہو۔

مولانا طارق جمیل ہوں یا تبلیغی جماعت، دونوں کے چاہنے والے ان سے صرف یہی امید رکھتے ہیں کہ یہ اختلاف دل کی صفائی، عاجزی اور خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ ختم ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان، جو اللہ کی راہ کے ان سپاہیوں سے ہمیشہ خائف رہا ہے، ان کے درمیان اختلاف کے بیج بو دے اور ہم تماشا دیکھتے رہیں۔ دین کو شخصیتوں کی بنیاد پر نہیں، نیت، اخلاص اور عمل کی بنیاد پر پرکھنا چاہیے۔

یاد رکھیے، اختلاف جب حسنِ ظن کے ساتھ ہو تو ترقی کی سیڑھی بن جاتا ہے اور جب تعصب کے ساتھ ہو تو زوال کی کھائی میں دھکیل دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو فہم عطا فرمائے۔

Check Also

Aatish Kada Baku (6)

By Ashfaq Inayat Kahlon