Saturday, 30 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Haqaiq Jaan Kar Geo

Haqaiq Jaan Kar Geo

حقائق جان کر جیو

سائفر یعنی دھمکی آمیز خط پر سب سے پہلی میٹنگ اس وقت ہوئی جب عمران خان ابھی وزیراعظم کی مسند پر براجمان تھا۔ یہ خط اس کی کیبنٹ میٹنگ میں زیر بحث لایا گیا جس کے بعد سکیورٹی اداروں کیساتھ میٹنگ کرکے انکے سامنے یہ خط رکھا گیا۔ عمران خان کی وزارت عظمیٰ سے بیدخلی کے بعد اور کابینہ کے استعفیٰ دینے کے بعد نیشنل سیکورٹی کی ایک میٹنگ ہوئی جس کی سربراہی میاں شہباز شریف نے کی۔ چنانچہ اس اہم اجلاس میں دوبارہ سائفر پر بحث ہوئی اور اس کو دوبارہ ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت کی حکومت اور تمام سکیورٹی ادارے اس مسئلہ کی شدت کو سمجھتے تھے تبھی اسے سازش اور مداخلت قرار دیتے رہے۔ اگر اس سائفر کی اتنی اہمیت نہ ہوتی تو اسے پہلی میٹنگ میں ہی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے۔ چلیں پہلی میٹنگ تو عمران خان اور اسکی کابینہ نے بلائی تھی تو شاید اس پر شک کیا جا سکتا ہے۔ دوسری میٹنگ میاں شہباز شریف کی زیر صدارت ہوئی جس میں اس سائفر کو ملکی معاملات میں مداخلت قرار دے کر اسکی تصدیق کر دی گئی۔

میرے کچھ احباب یہ تاویل دے رہے ہیں کہ ایسے خطوط روٹین کا حصہ ہیں عمران خان نے اسے ہوا بنا دیا ہے۔ وقتی طور پر انکی بات مان لیتے ہیں تو کیا ہم ہمیشہ بیرونی آقاؤں کے کہنے پر اپنی حکومتیں بناتے اور گراتے رہیں گے؟ کیا ہم ہمیشہ بیرونی آقاؤں کے کہنے پر اپنے ملک کی پالیسیاں بناتے رہیں گے؟ آخر کبھی تو اس سلسلے کو تھمنا ہے۔ ویسے انتہائی معذرت کے ساتھ مجھے تو کبھی کبھار یہ گمان گزرنے لگا ہے کہ ہم آج بھی امریکہ اور تاج برطانیہ کے غلام ہیں۔

ایک تاویل یہ دی جاتی ہے کہ عمران خان کو مہنگائی اور بیڈ گورننس کی وجہ سے نکالا گیا۔ اس دلیل کو بھی وقتی طور پر مان لیتے ہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نے بجائے اس کے کہ مہنگائی کو وہیں روک لیتے جہاں عمران خان نے چھوڑا ہے انھوں نے اپنے دور اقتدار کے ان چھ ماہ کے اندر مہنگائی میں چھ گنا اضافہ کر دیا ہے۔ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ اقتدار میں آکر ہم پٹرول کی قیمتوں میں کمی کریں گے انھوں نے سو روپے اضافہ کر دیا جبکہ عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں پانچ گنا اضافہ کر دیا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ بجلی کے بل بھرنے کیلئے کسان اپنی زمین اور مال مویشی بیچنے پر مجبور ہے یقین نہیں آتا تو اپنے قریبی کسی غریب کسان سے پوچھ لیجئے جو پانچ دس ایکڑ زمین کا مالک ہے یا ٹھیکیدار ہے۔ اشیاء خور و نوش کی قیمتوں میں بےپناہ اضافہ کر دیا غرضیکہ مہنگائی تاریخ میں تیز ترین شرح سے بڑھی ہے۔ اس ساری صورتحال کیا اب موجودہ حکومت کے پاس اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز بچتا ہے؟

کورونا کے بعد پوری دنیا کی معاشی صورتحال یکسر بدل گئی مہنگائی گلوبل مسئلہ بن گیا۔ عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے مہنگائی کے آگے پھر بھی جیسے تیسے تھوڑا بہت بند باندھ رکھا تھا۔ کورونا کے باوجود ملکی گروتھ ریٹ چھ فیصد تک لے گیا جو گزشتہ بیس سال میں سب سے زیادہ ہے یہ فگر موجودہ پی ڈی ایم حکومت نے جاری کئے ہیں تحریک انصاف حکومت نے جاری نہیں کیا ہے۔

اب جو سننے میں آ رہا ہے کہ وزیراعظم ہاؤس سے وہ سائفر غائب ہو گیا ہے اور تحریک انصاف پر شک کیا جا رہا ہے انھوں نے غائب کیا ہے۔ بالفرض یہ مان لیتے ہیں کہ اگر سائفر تحریک انصاف کی حکومت نے غائب کیا تو عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے بعد میاں شہباز شریف کی زیر صدارت میٹنگ میں کس خط کو پڑھ کر میٹنگ اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا گیا کہ سازش نہیں مداخلت ہوئی ہے؟ سرکاری دفاتر میں ہر فائل مکمل نوٹنگ کیساتھ چلتی ہے اگر گم بھی ہو گیا ہے تو سائفر کی کاپی سپریم کورٹ اور صدر پاکستان کے دفتر میں بھی موجود ہو گی۔

میں اس سوچ میں ہوں کہ دال میں کچھ کالا ہے یا پوری کی پوری دال کالی ہے۔

Check Also

Extramarital Affairs

By Amer Abbas