Fayyaz Sahab Ki Kahani
فیاض صاحب کی کہانی

شام کی دھند جب حویلی کی پرانی دیواروں سے لپٹتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وقت خود بھی تھک کر ان زرد اینٹوں کے سائے میں پناہ لیتا ہے۔ پیپل کے درخت پر بیٹھا ایک پرندہ رات کے آنے سے پہلے بین کرتا ہے اور اندر ایک بوڑھا باپ وقت کے ماتھے پر لکھی جانے والی بے وفائی کی پیشانی چومتا ہے۔ ہر اینٹ، ہر دروازہ، ہر بند کھڑکی ایک سوال بن چکی ہے: "کیا اولاد محبت کے عوض صرف وراثت دیتی ہے یا تنہائی بھی لکھ دیتی ہے؟"
یہ کہانی وہ نہیں جو کتابوں میں ملے۔
یہ کہانی وہ ہے جو تنہائی کی ہنڈیا میں آنچ پر رکھی ہو۔
اور ہر دم ایک چیخ کے ساتھ اُبلتی ہو۔
جب تم سب سو جاتے ہو۔
تب وہ جاگتا ہے۔
نہ پیروں میں بیڑی، نہ ہاتھوں میں ہتھکڑی۔
پھر بھی قید ہے۔۔
تنہائی کی اُس کوٹھڑی میں۔
جسے زندگی کہتے ہیں۔
اس دن ویک اینڈ تھا اور میں دفتر میں موجود تھا۔ فیاض صاحب ہمارے بزرگ تھے اور بہت ہی" فیاض" تھے انکی کال آئی کہ آج گھر جاؤ تو واپسی پر مجھے مل کر جانا۔ میں نے حامی بھر لی۔ میں شام سے زرا پہلے فیاض صاحب کے دولت کدے پر موجود تھا۔ فیاض صاحب اپنے سلوٹوں سے بھرپور ہاتھوں سے میرے لئے صندل کا شربت بنا کر لائے تھے وہ نوش کرنے کے بعد کچھ معمول کی باتیں ہوئیں پھر اصل مدعا پر آئے۔
یہ کہانی ہے فیاض صاحب کی، ایک باپ کی۔
جس کی بیوی اسے جوانی میں چھوڑ گئی تھی۔
بچے تھے، تین بیٹے اور ایک بیٹی۔
فیاض صاحب نے انہیں ماں کی آغوش اور باپ کے سایے کا فرق کبھی محسوس نہ ہونے دیا۔
بچوں کی شادیاں کیں، جائیداد بنائی، کاروبار جمائے۔
پھر ایک دن خود ہی سب کچھ بچوں کے نام کر دیا۔
ایک پرانا سا کاغذ، چند دستخط۔
اور دل میں ایک حسرت:
"یہ سب کچھ ان کا ہے۔
بس میرے جنازے کو خالی نہ جانے دینا۔ "
چند برس بعد فیاض صاحب اپنی ویران حویلی میں اکیلے رہتے تھے۔
تین کمروں کی خاموشی اور ایک دل کی دھڑکن۔
کوئی بیٹا کبھی حال پوچھنے نہ آیا۔
بیٹی کی شادی ایسی جگہ ہوئی کہ وہ لوگ زرا اکھڑ مزاج تھے لہٰذا کم کم ہی ملنے آتی۔
میں نے جب اُن سے پوچھا۔
"بابا جی، آپ نے تو سب کچھ دے دیا، اب کیا چاہتے ہیں؟"
وہ مسکرا دیے۔
"میں کچھ لینا نہیں چاہتا بیٹا۔
بس یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں ابھی زندہ ہوں"۔
میں انکی بات سمجھ چکا تھا عدالت سے باہر انکا یہ مقدمہ مجھے لڑنا تھا۔ کبھی کبھار وکیل کو کوئی کیس ہارنے کیلئے بھی لڑنا پڑتا ہے۔
میں نے وہیں بیٹھے تینوں بیٹوں کو کال کیا اور انھیں اگلے ہفتے مقررہ تاریخ پر حویلی آنے کا کہا۔ سورج شام کا سرمئی آنچل اوڑھ چکا تھا لہذا میں نے اجازت چاہی۔
اگلے ہفتے مقررہ دن حویلی میں عدالت لگی۔ جج خدا کو بنایا گیا۔
میری وکالت میں قانون کم اور درد زیادہ تھا۔
فیاض صاحب نے آبدیدہ آنکھوں سے کچھ جذباتی باتیں کیں۔ میں نے تینوں بچوں کو بڑے دھیمے لہجے میں سمجھانے کی کوشش کی منجھلا بیٹھا تھوڑا اکھڑ تھا اس نے زرا سی بدتمیزی کی تو میں نے باتوں ہی باتوں میں اسکی ایسی طبیعت صاف کی کہ باقی بچوں میں بھی جو کس بل تھے سارے نکل گئے۔ اس کے بعد عرض کیا:
باپ کا دل کوئی زمین کا ٹکڑا نہیں، جسے ناپ کر بانٹ دیا جائے۔
یہ انمول ہے۔
اور جب اس پر بیٹے ہی قبضہ کر لیں تو
قانون قدرت خاموش نہیں رہ سکتا"۔
انھیں بتایا کہ تمہارا باپ شدید تنہائی، اداسی اور بے قدری کے شکار ہیں۔ انہوں نے قانون سے زیادہ اپنی اولاد کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے اس اکٹھ کا سہارا لیا۔ بیٹوں کے چہرے ایسے تھے جیسے فیصلہ اُن کے خلاف آیا ہو۔ شرمندہ ہوئے اور آئندہ انھوں نے روزانہ باپ کو موبائل-فون پر روزانہ کال اور ہر ہفتے اپنی فیملیز کیساتھ اپنے باپ کے پاس حویلی میں باری باری ایک ایک دن گزارنے کا وعدہ کیا۔
میں رخصت ہونے لگا تو فیاض صاحب دروازے تک میرے ساتھ آئے۔
اور آہستہ سے کہا:
"عامر بیٹا۔
تم نے میرا مقدمہ نہیں لڑا۔
میرا دل جیت لیا ہے۔
اور چند دن بعد وفات پا گئے۔
یہ صرف ایک مقدمہ نہیں تھا۔
یہ ایک چیخ تھی خاموش، زخمی اور ان سنی۔ فیاض صاحب تو فوت ہو گئے مگر ان کا وہ درد آج بھی میرے دل میں زندہ ہے۔

