Extramarital Affairs
ایکسٹرا میریٹل افیئرز
میری چونکہ فیلڈ ایسی ہے کہ میرا شہری علاقوں یا دیہات سے تعلق رکھنے والے ہر عمر اور جنس کے ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ واسطہ رہتا ہے، میل جول رہتا ہے، گفت و شنید رہتی ہے، کیسز یا دیگر مسائل کے حوالے سے مختلف موضوعات زیر بحث رہتے ہیں۔ کچھ سال پہلے تک سب سے زیادہ فیملی کیسز پر بحث مباحثہ ہوتا تھا جس میں سب سے اہم فیکٹر ایکسٹرا میریٹل ریلیشنز کا فیکٹر تھا خواتین زیادہ تر اسی وجہ سے خلع لیتی ہیں۔ اگرچہ اس میں دیگر فیکٹرز بھی انوالو ہوتے ہیں مگر سب سے اہم فیکٹر بہرحال یہی ہے بھلے یہ مرد حضرات کی جانب سے ہو یا خواتین کی طرف سے۔
ازدواجی تعلقات کا موضوع پاکستان میں ہمیشہ سے ہی متنازعہ رہا ہے اسے ایک ٹیبو بنا کر ہی رکھا ہوا ہے اگر کوئی اس موضوع پر اصلاحی بات بھی کرتا ہے تو اسے یوں گھور کر دیکھا جاتا ہے یا جملے کسے جاتے ہیں گویا دنیا میں سیکس کا بانی وہی شخص ہے۔ حالانکہ ایک عام نفسیاتی اصول ہے کہ جن موضوعات پر کھل کر بات نہیں کی جائے گی ان سے متعلقہ مسائل کو سلجھایا نہیں جاسکتا بلکہ وہ وقت کیساتھ ساتھ الجھتے جاتے ہیں۔ یہ مسائل سپرنگ کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کو جتنا دبائیں گے یہ اتنی طاقت سے ابھر کر سامنے آئیں گے۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی یلغار نے سیکس تک رسائی بہت آسان بنا دی ہے۔ بےراہ روی کی نئی راہیں فراہم کر دی ہیں مگر اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سوشل میڈیا سے پہلے ماضی میں لوگ ایکسٹرا میریٹل ریلیشنز نہیں رکھتے تھے۔ ماضی میں بھی ایکسٹرا میریٹل ریلیشنز بالکل اسی طرح ہوتے تھے جیسے آج ہیں اور جتنے آج ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کمیونیکیشن کا دور ہے ہم ایک دوسرے سے بآسانی ڈسکس کر لیتے ہیں ورنہ ماضی میں بھی ایکسٹرا میریٹل ریلیشنز ہوتے تھے اور آج کے دور جیسے ہی ہوتے تھے مگر اس وقت بیگمات اپنے شوہر کے ایسے ریلیشنز پر پردہ ڈال لیتی تھیں یا ایک محدود سرکل تک ہی ڈسکس کر سکتی تھیں جبکہ آج انکے پاس ڈسکس کرنے کیلئے جابجا پلیٹ فارمز موجود ہیں۔
دوسرا لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جی گاؤں دیہات میں تو پھر بھی کوئی شرم و حیا باقی ہے شہروں میں تو زرا بھی شرم حیا نہیں ہے، زنا بہت عام ہے۔ میں ایک دیہاتی بیک گراؤنڈ رکھنے والا شخص ہوں اور اپنی زندگی کی دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ لاہور میں گزارا ہے۔ یہاں دیہات کے لوگوں کیساتھ ہاسٹلز میں رہا ہوں۔ ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا ہے کہ ایکسٹرا میریٹل ریلیشنز کے معاملے میں گاؤں دیہات اور شہروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ بات صرف موقع اور جگہ کی ہے۔
ماضی میں بھی عوام کے یہی جذبات تھے جیسا کہ اب ہیں۔ ماضی میں بھی جب کبھی کسی کو موقع اور جگہ ملتی تو وہ عموماً اسے رائیگاں نہیں جانے دیتے تھے بھلے وہ شہر ہو یا گاؤں۔ دوسرا یہ کہ گاؤں دیہات اور شہر دونوں میں جنسی تعلقات بنانے والوں کی تعداد میں کوئی فرق نہیں تھا۔ گاؤں کی آبادی چونکہ کم ہوتی ہے اور شہر کی زیادہ اسی وجہ سے لگتا ہے کہ شاید دیہاتوں میں ایکسٹرا میریٹل ریلیشنز شہروں کی نسبت کم ہے۔ ورنہ ایسی بات ہرگز نہیں تھی بس انیس بیس کے فرق کیساتھ برابر ہی تھی۔ آج بھی آپ دیکھ لیجئے کہ آبادی کی شرح کے اعتبار سے شہر اور دیہات کے رپورٹ ہونے والے کیسز تقریباً برابر ہی ہیں۔