Emandar Sabzi Farosh Aur Aaj Ke Bache
ایماندار سبزی فروش اور آج کے بچے

میں عموماً گھر کیلئے سبزی ایک ہی دکان سے خریدتا ہوں۔ جمعہ یا اتوار والے دن پورے ہفتے کی سبزی لا کر فریج میں رکھ دیتا ہوں پھر پورا ہفتہ بےفکری سے گزرتا ہے۔ یہ شہر کے بیچوں بیچ ایک عام سی سبزی والی دکان ہے مگر جو چیز اس دکاندار کو منفرد بناتی ہے وہ اس کی دیانتداری ہے۔ آپ وہاں سے سبزی لیں گے تو آپ کو زرا برابر بھی باسی یا ناکارہ سبزی نہیں ملے گی سب کچھ ایک دم تازہ فریش اور عمدہ کوالٹی ہوگا یہی چیز اسے دیگر سبزی والوں سے ممتاز کرتی ہے اس نے ہر سبزی کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہوا ہے ایک بہترین اور فریش جبکہ دوسری زرا کم کوالٹی۔ اسی وجہ سے دونوں کے الگ الگ ریٹس ہیں۔ ریٹس بھی بہت مناسب ہیں۔
میں پورے ہفتے کی سبزی ایک بار ہی جمعہ یا اتوار کو خریدتا ہوں۔ دکان پر کافی رش ہوتا ہے دکاندار نے ایک سائیڈ خواتین کیلئے مختص کر رکھی ہے اس سائیڈ پر مرد حضرات کا جانا ممنوع ہے۔ جبکہ دوسری سائیڈ مرد حضرات کیلئے ہے۔ باری باری ایک ایک کرکے دونوں قطاروں سے گاہکوں کو نمٹاتا جاتا ہے۔ میں جب بازار جاتا ہوں تو سبزی والی لسٹ دکاندار کے حوالے کرکے خود دیگر کام نمٹانے کیلئے چلا جاتا ہوں واپسی پر سبزی والے سے اپنی سبزی اٹھا لیتا ہوں اس نے اسے پیک کرکے رکھا ہوتا ہے یقین مانیں زرا بھی فکر نہیں ہوتی کہ دکاندار نے کوئی سبزی ناقص ڈال دی ہوگی۔ ورنہ عموماً ایسا بہت کم ہوتا ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ دیکھے بنا سبزی یا پھل لائیں اور وہ صاف ستھرے اور عمدہ کوالٹی نکل آئیں۔
خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی جو برسبیل تذکرہ یاد آ گئی۔ کل سبزی لینے کیلئے گیا تو دکان پر خاصا رش تھا۔ دکاندار نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ صاب جی پرچی دے دیجئے واپسی پر سبزی لیتے جائیں۔ میں نے کہا نہیں مجھے ابھی لے کر جانا ہے باقی سارا سامان لے لیا ہے کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں۔ میری باری آنے پر دکاندار نے میری پرچی سامنے رکھ کر سبزی پیک کرنا شروع کر دی۔ ساتھ ساتھ بتانے لگا ابھی دس منٹ پہلے ایک گاہک آئے انکے ساتھ ایک اور شخص اپنے بچے کیساتھ آئے تھے جو سڑک کی دوسری طرف کھڑے ہو گئے۔ کچھ ہی دیر میں اچانک اس دس سالہ بچے نے نہر کے اندر چھلانگ لگا دی۔ وہاں کہرام مچ گیا۔ فوری طور پر ایک نوجوان نے نہر میں چھلانگ لگا کر بچے کو بحفاظت نہر سے نکالا۔ پتہ چلا کہ بچے نے باپ سے کوئی فرمائش کی جس پر باپ نے بیٹے سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ آج پیسے نہیں ہیں اگلے اتوار تمہیں لے دوں گا۔ اس پر بچے نے غصے سے نہر میں چھلانگ لگا دی۔
گھر واپسی پر میں سوچ رہا تھا کہ یہ ایک واقعہ نہیں ہے ایسے یا اس سے ملتے جلتے انگنت واقعات ہمارے ساتھ یا ہمارے اردگرد ہر روز رونما ہوتے ہیں ہماری نسل کس قدر بےراہ روی کا شکار ہوتی جا رہی ہے دیجیٹل میڈیا اور موبائل-فون کا اس میں اہم کردار ہے۔ میرے خیال سے اس میں زیادہ قصور ہمارا اپنا ہے ہمارے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ ہم اپنی اولاد کی درست سمت تربیت کر سکیں انھیں وقت دے سکیں۔
آج والدین اور اولاد کے درمیان وہ باؤنڈنگ ہی نہیں ہے جو ہونی چاہئے جبکہ ایسے حالات میں ہماری اولاد کو ہمارے وقت اور تربیت کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے مگر ہم خود پیسے کی دوڑ اور دیگر سرگرمیوں میں اسقدر مگن ہیں ہمیں ادراک ہی نہیں ہے کہ ہماری اگلی نسل تربیت کس جانب جا رہی ہے۔

