Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. College Aur Madrasson Ke Talaba Ke Masail

College Aur Madrasson Ke Talaba Ke Masail

کالج اور مدرسوں کے طلباء کے مسائل

تین روز قبل دوست نے پاکستانی نجی تعلیمی اداروں کے کنسرٹس میں بھارتی طرز پر بہت باریک ڈریسز میں ملبوس لڑکے لڑکیوں کے ناچ گانے کی ویڈیوز بھیجی۔ چند برس پہلے کالجز اور یونیورسٹیوں میں میوزیکل کنسرٹس کے نام پر ہونے والی بےحیائی پر میں نے ایک مکمل کالم لکھا تھا شاید فیس بک پر بھی شئیر کیا ہو۔ پرائیویٹ یونیورسٹی سے ملحقہ ہاسٹل میں ایک طالبہ کے حاملہ ہونے کے بعد قتل پر میرا مضمون شاید آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے۔

ایک پرائیویٹ یونیورسٹی سے باہر آتے ہاتھوں میں ہاتھ دئیے، بازوؤں میں بازو دئیے، جسم کیساتھ جسم رگڑتے، فحش حرکتیں کرتے لڑکے لڑکیوں کو دیکھنے کے بعد لکھی گئی میری تحریر آج بھی موجود ہے۔ میرے فالوورز جو مجھے کچھ عرصہ سے پڑھ رہے ہیں وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ میرا یہ سب لکھنے کا مقصد اصلاحی ہوتا ہے کسی مخصوص ادارے، مدرسے یا فرد کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں ہوتا کیونکہ تنقید برائے تنقید والی تحریر سے بہتری ممکن ہی نہیں ہے بلکہ سدھار کے بجائے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے فیس بک میں ایڈ دوست نے ویڈیو بھیجی جس میں اس نے ایک مسجد کے واش روم سے مولوی اور چودہ پندرہ سال کے بچے کو برآمد کیا۔ جب مولوی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ میں اسے استنجا کا طریقہ سمجھا رہا تھا۔ اللہ کرے کہ وہ صرف استنجا کا ڈیمو ہی دے رہا ہو۔ دینی مدارس میں بھی گاہے گاہے بدفعلی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ رمضان المبارک میں اعتکاف کے دوران تیرہ سالہ بچے کے ساتھ ہونیوالے ذیادتی کے واقعہ پر کچھ دوست شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے تھے کہ یہ کوئی انتقامی کارروائی لگتی ہے مدرسے کو بدنام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم وقتی طور پر اس جواز کو درست تسلیم کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ ہونے والے تمام واقعات کو من گھڑت تسلیم کرتے ہوئے آپ سب دوست دیانتداری سے بتائیں کہ کیا آپ کے گردوپیش کے مدرسوں میں زیادتی کے واقعات وقوع پذیر نہیں ہوتے؟ کیا آپ لوگ اپنی نجی محافل میں ایسے واقعات کو عموماً ڈسکس نہیں کرتے اور اکثر و بیشتر ایسے واقعات کی پردہ پوشی نہیں کرتے؟ کیا ایک ناسور پر پردہ ڈالنے سے وہ ٹھیک ہو جائے گا یا اسکا مناسب علاج کیا جانا چاہئے؟

حد تو یہ ہے کہ مدرسوں میں ہونے والے ایسے واقعات کی روک تھام کے اقدامات کرنے کے بجائے ان واقعات کا تقابل کالجز اور یونیورسٹیز کیساتھ کیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات یونیورسٹیوں اور کالجز کیلئے بھی ناسور ہیں انکی روک تھام کیلئے اقدامات ہونے چاہئیں مگر دینی تعلیمات کی درسگاہوں کی تقدیس دنیاوی تعلیم کی درسگاہوں سے قدرے زیادہ ہے لہذا دینی مدرسوں پر قدرے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

مدرسوں میں پڑھنے والے سارے بچے قطعاً برے نہیں ہوتے۔ بہت سے نیک سیرت بچے بھی ہوتے ہیں۔ بدفعلی کے واقعات میں قصوروار صرف قاری حضرات ہرگز نہیں ہیں۔ آئیں اس پر زرا کھل کر بات کرتے ہیں۔ ایسے واقعات کا سب سے اہم محرک حدود اللہ کو توڑنا اور فطری اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔

سیکس انسان کی فطرت میں شامل ہے یہ سکھایا نہیں جاتا بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک جنسی جذبات ہر انسان و حیوان میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ چلیں میں آپ کو ایک حیرت انگیز سچا واقعہ سناتا ہوں۔ گزشتہ سے پیوستہ برس میں دو افراد کیساتھ اپنی زمین سے واپس آ رہا تھا ہم نے دیکھا کہ ایک چار سال کا بچہ اپنی ہم عمر بچی کو دیوار کیساتھ لگا کر اس کے پیچھے سے بالکل بدفعلی کی طرح کی حرکت کر رہا تھا۔ خلفیہ کہتا ہوں کہ واقعہ میں نے بچشم خود دیکھا تھا۔ دونوں بچوں کے چہرے کے وہی تاثرات تھے جو بالغوں میں ہوتے ہیں۔ اللہ جانے ان دونوں بچوں نے اپنے والدین کو اس حالت میں دیکھا یا کوئی اور ماجرا تھا۔

خیر اب اصل مدعے کی جانب آتے ہیں۔ دو بھائیوں کے بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک انکے بستر الگ کر دینے والی حدیث مبارکہ کے پیچھے کتنی بڑی حکمت پنہاں ہے اسکی عملی مثال آپکو مدرسوں کے واقعات میں مل سکتی ہے۔ معاملہ اس وقت خراب ہوتا ہے جب دس سے پندرہ برس کی عمر کے بچے مدرسے میں رات کو بھی قیام کرتے ہیں۔ اگرچہ انکے بستر الگ الگ ہوتے ہیں مگر یہ پھر بھی نظر بچا کر اپنے بستر شئیر کر لیتے ہیں۔

یہ عمر لاابالی سی ہوتی ہے۔ سنگین نتائج سے بےخبر کچھ بچے اپنی کم علمی اور کم عمری کی بناء پر قابل اعتراض حرکتیں کرتے ہیں جو کہ گروہ کی شکل میں اس عمر کے بچے عموماً کرتے ہیں۔ مدرسہ میں اکٹھے سارا دن رہتے ہیں شرارتیں کرتے ہیں اور ناسمجھی میں کی جانے والی قابل اعتراض حرکتیں عموماً رات کے وقت یا دن میں جب جہاں بھی خلوت میسر آ جائے بدفعلی پر جا کر منتج ہوتی ہیں۔

ان مدرسوں سے فارغ التحصیل انھی بچوں میں سے کچھ بچے بڑے ہو کر کسی مدرسے کے قاری بھی بن جاتے ہیں۔ ایسے اساتذہ اپنے ادارے کی بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں۔ ان واقعات کی پردہ پوشی کرنے یا تاویلات دینے سے یہ واقعات ختم ہونے کے بجائے بڑھیں گے اب اس سب کا واحد اور بہترین حل وہی ہے جو میں گزشتہ تحریر میں پیش کر چکا ہوں کہ مدرسوں میں رات کے قیام پر پابندی عائد کر دی جائے۔ تمام مدرسوں میں کیمرے نصب کئے جائیں۔

علماء کرام ایسا لائحہ عمل ترتیب دیں کہ بچہ صرف دن کے اوقات میں مدرسہ جائے اور شام تک گھر واپس آ جائے۔ مدرسوں کو ریگولیٹ کیا جائے جابجا کھلے مدرسے بند کر دئیے جائیں اساتذہ کی تعیناتی خوب چھان بین کرکے کی جائے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر اقدامات کرکے ایسے واقعات میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔

Check Also

Be Maqsad Ehtejaj

By Saira Kanwal