Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Chamakti Screenen, Bujhte Chiragh

Chamakti Screenen, Bujhte Chiragh

چمکتی اسکرینیں، بجھتے چراغ

رات کی تاریکی میں جب دیواروں پر سناٹا سایہ فگن ہوتا ہے، جب ستارے نیند کے جھولے میں جھوم رہے ہوتے ہیں، تب ایک کمرہ ہے جس میں ایک ننھا سا وجود چپ چاپ روشن اسکرین کے سامنے بیٹھا ہے۔ چہرے پر کوئی تاثر نہیں، آنکھوں میں حیرت کی ایک جمُود زدہ لہر اور ہاتھ میں وہ آلہ ہے جس نے آجکل کے بچپن کو قید کر رکھا ہے۔ نہ کھلونے کے قہقہے سنائی دیتے ہیں، نہ صحن میں دوڑتی چھوٹی چھوٹی چپلوں کی کھٹ کھٹ، نہ "چور سپاہی" کے معصوم نعرے۔ فقط ایک اسکرین ہے اور اس کے سامنے جھکتی نسل۔

اکیسویں صدی کا بچہ ہنر سے نہیں، ہارڈ ویئر سے مانوس ہو رہا ہے۔ والدین کو جب ذرا سکون درکار ہوتا ہے، وہ موبائل تھما دیتے ہیں۔ جیسے گویا ایک دیجیٹل دایہ بچے کو بہلانے کے لیے کافی ہو۔ مگر جو خاموشی اس اسکرین کے پیچھے چھپی ہے، وہ کئی طوفانوں کی ماں ہے۔

سائنسدان چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ دو سال سے کم عمر بچے اگر موبائل یا ٹیبلٹ کو زیادہ دیکھیں تو اُن کے دماغ میں زبان سیکھنے اور ربط پیدا کرنے والے خلیات سست ہو جاتے ہیں۔ گویا بچہ بولنے سے پہلے سکرین کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ جنہیں ماں کی گود میں قصے سننے تھے، وہ اب یوٹیوب کے "ریکمنڈیڈ ویڈیوز" میں گم ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال کے بقول اگر کوئی بچہ رو رہا ہو اور مجھے یہ چوائس دے دی جائے کہ آپ بچے کے ہاتھ میں موبائل دے کر چپ کروائیں گے یا آگ کا دہکتا ہوا کوئلہ، میں ایسی صورت میں بچے کے ہاتھ میں دہکتا ہوا کوئلہ دینے کو ترجیح دوں گا۔

یہ صرف زبان یا ذہن کی بات نہیں۔ اسکرین سے نکلنے والی نیلی روشنی انسانی نیند کے قدرتی نظام کو درہم برہم کر دیتی ہے۔ بچے چڑچڑے ہو جاتے ہیں، نیند ادھوری رہتی ہے اور دن بھر جسمانی اور دماغی تھکن انہیں اپنے سائے میں لیے پھرتی ہے۔ اوپر سے یہ کارٹونز، جو تیز آواز، غیر حقیقی حرکات اور رنگوں کی بارش سے بنے ہوتے ہیں، بچوں کے دماغ کو Overstimulate کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ بچہ عام زندگی کے سادہ مناظر کو بورنگ سمجھنے لگتا ہے اور حقیقت اسے بے مزہ محسوس ہوتی ہے۔

ایک اور اہم نقصان جس کی طرف بہت کم دھیان دیا جاتا ہے، وہ جسمانی صحت ہے۔ بچے گھنٹوں ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے رہتے ہیں، نہ دوڑ، نہ پھلانگ، نہ پسینے کی کوئی رمق۔ نظر کمزور ہوتی ہے، موٹاپا خاموشی سے اپنے پنجے گاڑ دیتا ہے اور ایک جیتا جاگتا بچپن صرف سکرول اور سوائپ کی عادت بن جاتا ہے۔

تو پھر کیا کریں؟ دنیا بدل رہی ہے، ٹیکنالوجی ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ مگر ٹیکنالوجی کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو تنہائی، تھکن اور تخیل کی موت کے حوالے کر دیں۔

بچوں کو تخلیقی سرگرمیوں کی طرف لائیں۔ انہیں تصویری کتابوں کا ذائقہ چکھائیں۔ کاغذ پر رنگ بکھیرنے دیں۔ نرم مٹی سے گھر بنانا سکھائیں، کپڑوں کی گڑیا سے باتیں کرنا یاد دِلائیں۔ صحن کی مٹی، شام کی ہوا اور چڑیوں کی چہچہاہٹ انہیں واپس لوٹائیں اور سب سے بڑھ کر انہیں اپنی موجودگی کا لمس دیں۔ والد کی انگلی اور ماں کی آغوش جیسی کوئی "ایپ" ایجاد نہیں ہو سکی۔

آج کے بچے جب کل کے جوان ہوں گے تو ان کی یادوں میں اگر صرف اسکرینیں رہ گئیں تو یقین جانیے ہم نے ان سے بچپن چھین لیا۔ وہ چمکتے ہوئے موبائل کبھی ان بجھتے چراغوں کا نعم البدل نہیں بن سکتے جو کبھی دادا کی گود میں جلتے تھے۔

سوچ لیجیے، ابھی وقت ہے۔ بچپن کو پھر سے اصلی رنگوں میں رنگنے کا۔ کیونکہ یہ عمر پھر کبھی نہیں آئے گی اور یہ فرصت کی گھڑیاں اگر ضائع ہوگئیں تو صرف بچے ہی نہیں ہم والدین بھی اپنی زندگی کی سب سے قیمتی خوشبو سے محروم رہ جائیں گے۔

Check Also

Mushtarka Khandan Aur Jadeed Samaj

By Javed Ayaz Khan