Burger Boy Nahi Boss
برگر بوائے نہیں باس

لاہور کی ایک شام تھی، بارش کے بعد کی بھیگی سڑکیں اور ٹریفک کا شور۔ انہی سڑکوں پر ایک نوجوان فوڈ ڈلیوری بوائے اپنی بائیک پر آرڈر پہنچا رہا تھا۔ بیک پر کھانے کے ڈبے، جسم پر بارش کی بوندیں اور چہرے پر تھکن کے باوجود ایک عزم کی روشنی۔ یہ علی رضا تھا، جو دن کو یونیورسٹی میں ماسٹرز کرتا اور شام کو ڈلیوری بوائے کے طور پر کام کرتا تھا۔ میرا آفس ان دنوں ارفع ٹاور میں تھا اور رہائش بھی اسی عمارت کے عقب میں موجود پوش ایریا میں تھی۔ میں بھی کبھی کبھار اس سے کھانا منگوا لیتا تھا۔ پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا لڑکا تھا۔ اکثر لوگ اس کا مذاق اڑاتے: "ماسٹرز کرکے بھی برگر پیزا پہنچا رہا ہے؟" مگر علی خاموش رہتا۔ شاید اسے معلوم تھا کہ یہ بائیک اس کے خوابوں کی منزل تک پہنچنے کا راستہ ہے۔
پانچ برس بعد یہی علی رضا ایک بین الاقوامی فوڈ کمپنی کے کارپوریٹ سیکشن میں سینئر مینیجر کی کرسی پر بیٹھا اور ساتھ اپنا بزنس بھی سیٹ کر رہا تھا۔ وہی لڑکا جسے کبھی "برگر بوائے" کہا جاتا تھا، آج سینکڑوں ملازمین کا باس تھا۔ اس کی کامیابی نے ثابت کر دیا کہ کام کی نوعیت چھوٹی نہیں ہوتی، اصل چیز سوچ کا زاویہ ہے۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ محنت اور تعلیم کا امتزاج ہمیشہ زندگی بدل دیتا ہے۔ مائیکل فارڈے (Michael Faraday)، جس نے بجلی کے میدان میں انقلاب برپا کیا، ابتدائی دنوں میں کتابوں کی دکان پر نوکری کرتا تھا۔ اس کی جیب خالی تھی مگر ذہن بھرا ہوا۔ اسی لگن نے اسے سائنس کا وہی مقام دیا جو آج بھی یاد رکھا جاتا ہے۔
ماہرینِ تعلیم کہتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی ترقی میں تین ستون ہوتے ہیں: محنت، تعلیم اور صبر۔ اگر محنت تعلیم سے نہ جڑ پائے تو وہ مزدوری بن جاتی ہے اور اگر تعلیم محنت کے بغیر ہو تو وہ رٹے کا ڈھیر۔ دونوں جب ساتھ ہوں تو دنیا کے بڑے بڑے دروازے کھلتے ہیں۔
اسلامی تاریخ میں بھی یہ مثالیں روشن ہیں۔ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں ایک مزدور کو مدینہ کے بازار میں خراج جمع کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ جب کسی نے اعتراض کیا کہ "یہ تو عام مزدور ہے"، حضرت عمرؓ نے جواب دیا: "اہم ذمہ داری کردار اور صلاحیت دیکھ کر دی جاتی ہے، پیشہ دیکھ کر نہیں"۔ یہی وہ سوچ تھی جس نے عام لوگوں کو بڑے عہدوں تک پہنچایا۔
بین الاقوامی ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق تعلیم اور ہنر کا امتزاج رکھنے والے افراد، صرف تعلیم یافتہ افراد کی نسبت 60 فیصد زیادہ کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ خواب دیکھنے کے ساتھ ساتھ زمین پر چلنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔
پاکستان میں بھی ایسی کئی کہانیاں چھپی ہیں۔ اسلام آباد کے ایک نوجوان حمزہ، جو فوڈ پانڈا کے ساتھ پارٹ ٹائم ڈلیوری بوائے تھے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد آئی ٹی کمپنی میں پروجیکٹ مینیجر بن گئے۔ آج وہی لوگ جو کبھی اس پر ترس کھاتے تھے، اس سے نوکری کی سفارش مانگتے ہیں۔
معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم پیشے کو عزت اور ذلت کے ترازو میں تولتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر جائز کام عبادت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے مزدوری کی، جوتے مرمت کیے، کپڑوں پر پیوند لگائے اور اونٹ باندھے۔ آپﷺ نے فرمایا: "کسی نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے بڑھ کر پاکیزہ روزی نہیں کھائی"۔ (بخاری)
سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ وہ نوجوان جو دن کو پڑھائی اور رات کو چھوٹا موٹا کام کر رہے ہیں، ان کا مذاق اڑانے کے بجائے ان کی عزت کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہی لوگ کل کے رہنما ہیں۔
علی رضا جیسے نوجوان ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ منزل انہی کو ملتی ہے جو تھکن، تنگ دستی اور طعنوں کے باوجود اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔
اور یاد رکھیے: "کام چھوٹا نہیں ہوتا، سوچ چھوٹی ہوتی ہے"۔

