Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Betiyan Qeemti Hoti Hain

Betiyan Qeemti Hoti Hain

بیٹیاں قیمتی ہوتی ہیں

وہ شام حد درجہ خاموش تھی۔ مغرب کی نماز کے بعد صحن میں لگے بیری کے درخت تلے ایک بوڑھی ماں تسبیح کے دانے گن رہی تھی لیکن آنکھیں اُس کھڑکی پر تھیں جہاں سے کبھی اس کی جوان بیٹی ہوا میں چمکتی چوڑیاں سنوارا کرتی تھی۔

اب وہاں خاموشی تھی اور ماں کے دل میں ہلکی سی کھٹک۔ شک کی نہیں، ملال کی۔

بیٹیاں جب بچپن سے لڑکپن میں داخل ہوتی ہیں تو والدین کے دلوں میں پہلی بار "فکر" نام کا پودا اگتا ہے۔ پھر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس پودے پر "شک" کی بیل لپٹنے لگتی ہے اور اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم اس بیل کو سینچنے لگتے ہیں، بجائے اسے کاٹنے کے۔

حالانکہ اس موقع پر جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، وہ "محبت کی رسی" ہے۔

کیا عجب تضاد ہے!

بعض گھروں میں خواتین کیلئے رویہ بہت تنگ نظری پر مبنی ہوتا ہے جبکہ کچھ گھروں میں حد سے زیادہ کھلا ماحول۔ اس ابتداء اور انتہا کے درمیان کہیں ایک میانہ روی والا راستہ ہے جو اکثر لوگ بھٹک جاتے ہیں۔ ہم بیٹیوں کو بچپن میں گڑیا خرید دیتے ہیں، ان کی آنکھوں کی چمک پر قربان ہوتے ہیں لیکن جب وہ بڑی ہوتی ہیں تو انہی آنکھوں میں اپنی رسوائی ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ وہی بچی جو کبھی "ابو آج بھی تمہارے ساتھ سونا ہے" کہہ کر بانہوں میں سمٹ جاتی تھی، اب اگر فون پر ذرا مسکرا دے تو ہمیں شک ہونے لگتا ہے۔

لیکن وقت کی نبض کو پہچاننے والے والدین جانتے ہیں کہ تربیت کا سب سے مؤثر ہتھیار "اعتماد" ہے۔ بیٹی کے دل میں اگر اعتماد کا دیا روشن ہے تو باہر کی ہزار اندھیر نگری بھی اس کے قدم نہیں بہکا سکتی اور یہ اعتماد پیدا ہوتا ہے۔۔ محبت سے، گفتگو سے اور سب سے بڑھ کر۔۔ باپ کے کندھے کی نرمی سے۔

بیٹیاں قیمتی ہوتی ہیں اور قیمتی چیزوں کو دیواروں میں قید نہیں کیا جاتا، بلکہ انہیں تحفظ کا ایسا سایہ دیا جاتا ہے جہاں وہ خود کو آزاد بھی محسوس کریں اور محفوظ بھی۔ شک کی دیوار اونچی ہو تو بیٹی ڈرنا سیکھتی ہے، جھوٹ بولنا سیکھتی ہے، چپ رہنا سیکھتی ہے۔ لیکن اگر محبت کی رسی دراز ہو، تو وہ سچ بولتی ہے، گلے لگتی ہے، دل کی بات کہہ دیتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کا باپ اس کا سب سے بڑا راز دار ہے، جج نہیں۔

افسوس کہ ہمارے معاشرے میں کئی بیٹیوں کی جوانی ایک جرم جیسا محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہم ان کے کپڑوں، ان کی مسکراہٹ، ان کی سہیلیوں، یہاں تک کہ ان کے سوالوں پر بھی پہرہ بٹھا دیتے ہیں۔

ہم ان کے الفاظ میں بغاوت ڈھونڈنے لگتے ہیں حالانکہ اکثر وہ صرف سمجھنا چاہتی ہیں۔ سیکھنا چاہتی ہیں اور اگر ہم نہ سنیں، تو وہ کسی اور کو سناتی ہیں اور وہ "کوئی اور" ہمیشہ بھلا نہیں ہوتا۔

اس لیے اے بیٹی کے باپ!

جب تیری بیٹی بڑی ہو جائے تو تیری زبان اور لہجے میں سختی نہیں، شفقت ہونی چاہیے۔ تیری نظروں میں "جاسوسی" نہیں، "جذبہ" ہونا چاہیے اور تیرے دل میں خوف نہیں، یقین ہونا چاہیے، اُس پر اور اپنی تربیت پر۔

یاد رکھیں، شک ایک ایسا دروازہ ہے جو کھل جائے تو عزت بھی پیچھے رہ جاتی ہے اور رشتہ بھی۔ لیکن محبت کی رسی، وہ دور جا چکی بیٹی کو بھی پلٹا لاتی ہے، ہاتھ پکڑ کر سینے سے لگا لیتی ہے۔

تو شک کی اونچی دیوار نہ کھڑی کریں۔۔

محبت کی رسی دراز کریں۔

کیونکہ بیٹی جب ماں بنے گی تو تیری پرچھائی بنے گی۔

اور وہ پرچھائی کیسی ہو؟

یہ فیصلہ آج ہمارا رویہ کرے گا، ہمارا لہجہ کرے گا، ہماری شفقت کرے گی۔ بیٹیوں کے ساتھ گفتگو بند کرنا، ان پر پہرے بٹھانا، انہیں قید کرنا تربیت نہیں۔۔ بلکہ تربیت کا گلا گھونٹ دینا ہے۔

بیٹیوں کو وہ اعتماد دو جو انہیں سچ بولنے کا حوصلہ دے۔

بیٹیوں کو وہ محبت دو جو انہیں جھوٹ بولنے کی ضرورت نہ دے۔

کیونکہ بیٹیاں محبت میں سنورتی ہیں، شک میں نہیں۔

Check Also

Bharti Misre Par Pti Ki Ghazal

By Abdullah Tariq Sohail