Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Ana Ki Qurbani Dena Hogi

Ana Ki Qurbani Dena Hogi

انا کی قربانی دینا ہوگی

بارش کی بوندیں کھڑکی کے شیشوں پر دستک دے رہی تھیں جیسے وقت کہہ رہا ہو: "روکو، ذرا سنو! "

عدالت کا کمرہ حسب معمول بھرا ہوا تھا مگر آج ماحول کچھ الگ سا تھا۔ جج صاحب کی نگاہیں کسی گہری سوچ کا پتہ دیتی تھیں، وکلاء کے چہروں پر سنجیدگی اور سامنے کھڑے ماں باپ کے چہروں پر وہ خاموش طوفان جو صرف اندر ہی اندر برستا ہے۔

یہ کیس "حارث" کا تھا۔ سات سال کا معصوم بچہ۔

حارث کے والدین کے درمیان ناچاقی ہوئی۔ والدہ ناراض ہو کر حارث کو اسکے ننھیال لے آئی۔ ننھیال بھی دھدیال کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا۔

"صبح ماں کے گلے لگنا، شام کو باپ کے کندھے پر چڑھ کر ستارے گننا"۔ حارث کچھ ہی دن میں اپنے ماں اور باپ کے درمیان فٹ بال بن کر رہ گیا تھا۔ لیکن اب عدالت اس کی قسمت کا فیصلہ کرنے جا رہی تھی۔

ماں فریحہ ایک اسکول ٹیچر، محبت کرنے والی مگر اپنی تعلیم، نوکری اور آمدنی کے تکبر میں مبتلا بلا کی ضدی۔

باپ حسان ایک انجینیئر، سلجھا ہوا مگر اپنی اچھی انکم اور مجاذی خدا ہونے کے زعم میں مبتلا پرلے درجے کا انا پرست۔

دونوں گھروں کے بڑوں نے بہت کوشش کی مگر یہ دونوں اکٹھے رہنے کو تیار نہ تھے۔ اگرچہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کو تیار نہ تھے مگر بچے کو چھوڑنے کو بھی نہیں۔

میں حارث کی ماں کی جانب سے وکیل تھا۔

ماں نے کہا: "میں نے اسے جنم دیا ہے، میں ہی پال سکتی ہوں! "

باپ بولا: "میں نے اسے زندگی کے خواب دکھائے ہیں، ماں سے بہتر محفوظ رکھوں گا"۔

اور بچہ؟

وہ عدالتی بنچ کے پیچھے ایک کرسی پر بیٹھا اپنی گڑیا کے کپڑے درست کر رہا تھا۔ شاید اس کی دنیا ابھی اتنی بڑی نہ تھی کہ فیصلے سمجھ سکے مگر دل بہت چھوٹا تھا اور وہ بہت زیادہ محسوس کرتا تھا۔

عدالت نے حارث کو بلایا۔

جج صاحب نے اسے اپنے قریب بٹھایا، کندھے پر ہاتھ رکھا اور نرمی سے پوچھا: "بیٹا، آپ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہو؟ ماں یا باپ کے ساتھ؟"

پورا کمرہ عدالت سانس روکے منتظر تھا۔

حارث نے آنکھیں جھکا کر بہت آہستہ مگر واضح آواز میں کہا: "انکل میں دونوں کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے ماں کی گود میں نیند آتی ہے اور بابا کے سینے سے چمٹ کر سوتا ہوں"۔

ایک لمحے کو وقت رُک سا گیا۔

عدالت کی دیواریں گواہ تھیں کہ یہ جواب دل کو چیر گیا۔ ضدی ماں نے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کی جبکہ اناپرست باپ نے نظریں جھکا لیں۔

میں بطور وکیل وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا جب جج صاحب نے فائل بند کرتے ہوئے اپنی عینک اتار کر کہا:

"یہ بچہ آپ دونوں کے درمیان پل نہیں، میدان جنگ بن گیا ہے۔

اگر آپ دونوں میں اتنی سمجھ بوجھ باقی ہے جتنی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ایک کام کرو۔ اپنی ضد مار دو اور اپنے بیٹے کو جینے کا حق دے دو"۔

عدالت نے متبادل کسٹڈی کا فیصلہ دیا۔

ایک ہفتہ بچہ ماں کے پاس، دوسرا ہفتہ بچہ باپ کے پاس رہے گا اور ہر مہینے ایک دن وہ تینوں اکٹھے گزاریں گے صرف حارث کے لیے۔

گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ کے تحت کسٹڈی کے معاملے میں بچے کی مرضی اور منشاء کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اگر بچہ دونوں کیساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کرے تو اسے متبادل یا شئیرڈ کسٹڈی کا اصول کہا جاتا ہے جس میں بچے کی خواہش کے مطابق اسے ماں اور باپ دونوں کے پاس رکھا جاتا ہے تاکہ بچے کو دونوں کا پیار مل سکے۔

بہرحال یہ عدالتی فیصلہ اگرچہ فطرت کے عین مطابق تھا مگر بہت مشکل تھا۔ حارث کے نانا بہت جہاندیدہ شخص تھے میں نے حارث کے چچا کو قائل کرکے دونوں کو اپنے آفس بلایا۔ انھیں پہلے سے ہی مستقبل میں پیش آمدہ مشکلات کا کافی ادراک تھا۔ انھوں نے بھرپور کوشش کی بالآخر انکی محنت بارآور ثابت ہوئی اور چند ہفتوں بعد حارث کی ماں اپنے شوہر کے گھر آ بسی۔

بچوں کے لیے والدین کا بچھڑنا زندگی کا پہلا زخم ہوتا ہے جو وقت کیساتھ مندمل تو ہو جاتا ہے مگر اس کا نشان اور درد بچے کو جوانی اور بڑھاپے میں بھی محسوس ہوتا رہتا ہے اور جب والدین بچھڑ کر بھی لڑتے ہیں، تو وہ زخم ناسور بن جاتا ہے۔

ماں باپ کی ضد، انا اور لڑائیاں کبھی بھی بچے کی محبت کو بانٹ نہیں سکتیں۔

مگر اس کا دل ضرور توڑ دیتی ہیں۔

اگر بچہ دونوں سے محبت کرتا ہے تو ماں باپ دونوں کو بچے کی خاطر اپنی ضد اور انا کی قربانی دینا ہوگی۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali