Saturday, 21 June 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. AI Naye Dar Wa Kare Ga

AI Naye Dar Wa Kare Ga

AI نئے در وا کرے گا

رات کے آخری پہر جب فلک پر سناٹے کی چادر تنی ہوتی ہے، ستارے دور کہیں نیند کے الاؤ میں سسک رہے ہوتے ہیں اور شہروں کی روشنیاں تھکن سے بجھنے لگتی ہیں تب علم و خوف کے درمیان ایک انجانی جنگ چھڑتی ہے۔ خواب اور حقیقت کی سرحد پر کھڑا انسان ہاتھ میں نئی دنیا کا چراغ لیے سوچ میں گم ہوتا ہے کہ کیا وہ چراغ روشنی لائے گا یا سایہ؟

ذہن میں سوال گونجتے ہیں، کیا مشینیں انسانوں کے جذبوں کو نگل لیں گی؟ کیا عقل کی کوڈنگ، احساس کی جگہ لے لے گی؟ کیا ہم ایک ایسے کل کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں جذبات فالتو اور انسان بےکار ہو جائے گا؟ مگر یہ محض ایک خیال ہے، ایک دھند ہے، جو اس وقت تک قائم ہے جب تک ہم خود کو نہ پہچان لیں۔

آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا نام سنتے ہی کئی چہرے پریشان ہو جاتے ہیں، جیسے انسان کا عہد ختم ہونے جا رہا ہو اور مشینوں کا زمانہ شروع ہونے کو ہو۔ ایک غیر مرئی سا خوف دلوں میں سرایت کر چکا ہے، جسے میڈیا نے بڑھاوا دیا، سوشل میڈیا نے رنگا اور عام فہم افراد نے حقیقت سمجھ لیا۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا واقعی وہ وقت آ گیا ہے جب مشینیں انسان کو بےکار کر دیں گی؟ کیا یہ وہ لمحہ ہے جب علم و ہنر کے صدیوں پرانے ستون گرا دیے جائیں گے؟ اگر ایسا ہوتا تو نہ انسان کی آنکھ باقی رہتی، نہ دل اور نہ ہی وہ جذبہ، جو مشینوں کے کسی کوڈ میں فِٹ نہیں ہو سکتا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر انقلاب خوف کے ساتھ آیا مگر اُس نے نئے دروازے بھی کھولے۔ جب کپڑے بنانے کی مشین آئی تو کہا گیا کہ ہاتھ سے کام کرنے والے بیکار ہو جائیں گے۔ جب ریلوے آئی تو کہا گیا تانگے ختم ہو جائیں گے مگر پھر آپ نے دیکھا کہ رکشوں اور بسوں کی تعداد تانگوں سے کہیں زیادہ ہوگئی اور پہلے سے کہیں زیادہ لوگوں کو روزگار ملا۔ گدھا گاڑیوں کی تعداد کم ہوئی تو لوڈر رکشوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگئی روزگار کم ہونے کے بجائے اس میں مزید اضافہ ہوا۔ جب کمپیوٹر آیا تو کہا گیا کلرک اور حساب دان بےروزگار ہو جائیں گے لیکن آپ نے دیکھا کہ آج کلرکس اور حساب دان حضرات کی تعداد پہلے سے بڑھی ہے کیونکہ انکو نئی ٹیکنالوجی یعنی کمپیوٹر کیساتھ جوڑ دیا گیا۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر نئی ایجاد کے ساتھ نئی راہیں کھلتی گئیں۔ نئی فیلڈز جنم لیتی گئیں اور وہ لوگ جو سیکھنے اور خود کو بدلنے پر آمادہ تھے، وقت کے گھوڑے پر سوار ہو کر آگے بڑھتے گئے۔

آج آرٹیفیشل انٹیلیجنس بھی اسی دہلیز پر ہے۔ یہ ایک آلہ ہے، انسان کا تیار کردہ، انسان کی خدمت کے لیے۔ مگر کچھ لوگوں نے اسے گویا آنے والی قیامت کی علامت بنا دیا ہے کچھ لوگ تو خدانخواستہ اسے دجال سے تشبہ دے رہے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ AI صرف اُن کاموں کو متاثر کرے گا جو مشینی انداز میں دہرائے جاتے ہیں یعنی جہاں تخلیق، جذبہ، تعلق اور غیر متوقع فیصلہ سازی شامل نہ ہو۔ جہاں انسان صرف ایک مشینی پرزے کی طرح کام کر رہا ہو وہاں AI یقینی طور پر متبادل بن سکتی ہے۔ مگر دنیا کے بیشتر شعبے ایسے نہیں ہیں۔

صحت کا شعبہ لیجیے۔ کیا کوئی مشین ڈاکٹر کے تجربے، نگاہ، لمس اور دل کے احساس کی جگہ لے سکتی ہے؟ AI مددگار ہو سکتی ہے، معلومات دے سکتی ہے، رائے دے سکتی ہے، مگر وہ فیصلہ جو زندگی اور موت کے درمیان پل ہوتا ہے وہ صرف انسان ہی کر سکتا ہے۔ ایم بی بی ایس ڈاکٹر، سپیشلسٹ، سرجن، فزیوتھراپسٹ، ڈینٹسٹ، ڈرماٹولوجسٹ، نیوٹریشنسٹ ان سب کی ضرورت AI کے آنے سے کم نہیں، بلکہ بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ AI نے ڈیٹا دیا ہے، علم دیا ہے اور وہ لوگ جو اس علم کو انسانی فہم کے ساتھ جوڑ سکتے ہیں، وہ اب ہر ادارے کی ضرورت ہیں۔

اسی طرح، بائیو ٹیکنالوجی، بائیو کیمسٹری، مائیکروبائیولوجی، فارماسیوٹیکل سائنسز اور فوڈ ٹیکنالوجی یہ وہ میدان ہیں جہاں تحقیق اور تجربہ روز نیا رخ لیتا ہے۔ یہاں AI ایک ہتھیار ہے، مگر مجاہد وہی ہے جو اسے استعمال کرنا جانتا ہے۔ وائرس، جینیات، ویکسین، دوا یہ سب میدان انسانی عقل و شعور سے وابستہ ہیں۔ یہاں مشین صرف مشورہ دے سکتی ہے، فیصلہ انسان ہی کرتا ہے۔

پھر وہ لوگ جو فنی ہنر کے ماہر ہیں۔ جیسے الیکٹریشن، پلمبر، آٹو مکینک، کارپینٹر، AC ٹیکنیشن AI ان کا کبھی نعم البدل نہیں بن سکتی۔ AI جان سکتا ہے کہ مسئلہ کیا ہے، مگر تار کس طرح جوڑنی ہے، نٹ کس طرف گھمانا ہے اور ہاتھ ڈال کر بند پائپ میں جان کیسے ڈالنی ہے، یہ کام صرف وہی ہاتھ جانتے ہیں جنہوں نے سالہا سال کا تجربہ سمیٹا ہو۔ ایک چھوٹا سا پرزہ ہو یا ایک بڑی مشین، اسے دوبارہ زندگی دینا انسان کا کام ہے، مشین کا نہیں۔

حتیٰ کہ وہ فیلڈز جو آج AI سے سب سے زیادہ جڑی نظر آتی ہیں جیسے ڈیجیٹل مارکیٹنگ، تعلیم، کانٹینٹ کریشن، تربیت، قانونی تحقیق، انسانی نفسیات یہاں بھی AI صرف ایک معاون ہے۔ اصل کام تو وہی انسان کرتا ہے جو سچ کو محسوس کرتا ہے، جو الفاظ سے جذبات پیدا کرتا ہے، جو دوسروں کے دکھ کو اپنے دل سے سنتا ہے اور جو علم کو زندگی سے جوڑنے کا فن جانتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ AI ایک انقلاب ہے مگر ہر انقلاب ان کے لیے انعام ہوتا ہے جو بدلنے کے لیے تیار ہوں۔ جو سیکھتے رہیں، خود کو بہتر کرتے رہیں، جو زمانے کے ساتھ خود کو ڈھالنے کا حوصلہ رکھتے ہوں اور جو خود کو خالص انسان کی حیثیت سے پہچانتے ہوں۔

پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نسلیں AI کے دور میں ترقی کریں تو ہمیں انہیں وہ علم دینا ہوگا جو AI سے الگ ہے۔ انسانی اخلاق، جذبات، خدمت، تخلیق، تحقیق، فیصلہ سازی اور جذبہ۔ یہی انسان کی اصل طاقت ہیں۔ مشینیں جتنی مرضی تیز ہو جائیں، انسان اگر اپنے اندر کی روشنی کو زندہ رکھے تو وہ ہمیشہ بازی لے جائے گا۔ AI سے ڈرنے والوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بھی کسی انسان ہی ہی تخلیق ہے اس کے پیچھے بھی کسی حد تک انسانی عقل ہی کارفرما ہے پھر یہ انسان کو مات کیسے دے سکتی ہے۔ یہ بھی انسانی حکم کے تابع ہے۔

لہٰذا خوف کی بجائے علم، گھبراہٹ کی بجائے حکمت اور بے یقینی کی بجائے تیاری کا انتخاب کیجیے۔ AI ہمارا رقیب نہیں، ہمارا اوزار ہے۔ ہم نے اگر اس اوزار کو سمجھ لیا، تو آنے والے کل کے بادشاہ ہم ہی ہوں گے۔

Check Also

Trump Field Marshal Mulaqat Aur Sazishi Theoriyon Ke Dahi Bhalle

By Haider Javed Syed