Ab Raj Karegi Khalq e Khuda
اب راج کرے گی خلق خدا
پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج نے سب کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ بڑے بڑے جغادری صحافیوں کے تجزیوں کو بھی غلط ثابت کر دیا۔ اکثر جید صحافی حضرات تحریک انصاف کی چار سے چھ نشستوں کی پیشن گوئی کر رہے تھے۔ میں نے دو دن قبل عرض کیا تھا کہ تحریک انصاف بارہ نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائے گی تو بہت سے دوستوں نے تنقید کی مگر تحریک انصاف نے بارہ کے بجائے پندرہ نشستوں پر کامیابی حاصل کر کے مجھے بھی غلط ثابت کر دیا۔
میں نے بارہ نشستوں کا اس وجہ سے کہا تھا کہ ایک تو ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ بہت کم ہوتا ہے تحریک انصاف کے ووٹر زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ہیں جو کم نکلتے ہیں لہٰذا تحریک انصاف کی کامیابی زیادہ ٹرن آؤٹ سے مشروط تھی، ان ضمنی انتخابات میں ٹرن آؤٹ بھی کافی زیادہ رہا جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ دیہی علاقوں میں عوام اس طرح ری ایکٹ کریں گے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا شاید تحریک انصاف نے بھی نہ سوچا ہو گا۔
دوسرا فیکٹر پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کا تھا جس کا اثر تو ظاہر ہے پڑتا ہے کیونکہ گاؤں، دیہات میں بہت سے لوگ نالیاں سولنگ لینے کیلئے حکومت سے متاثر ہو کر ووٹ دیتے ہیں۔ ضمنی انتخابات میں پندرہ نشستیں حاصل کر کے تحریک انصاف اب پنجاب میں اپنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
مجھے حیرت مگر اس بات پر ہے کہ وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت، پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت، بیورو کریسی مسلم لیگ ن کے ماتحت، انتظامیہ مسلم لیگ ن کے ماتحت، اگر مسلم لیگ ن دھاندلی کا الزام لگاتی بھی ہے تو لگائے گی کس پر؟ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی شکست کی سب سے بڑی وجہ لوٹوں کو پارٹی ٹکٹ دینا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کچھ صحافی حضرات بھی یہی توجیہہ پیش کر رہے ہیں۔
او بھئی جن تحریک انصاف کے لوٹوں کو آپ نے ٹکٹ دیئے وہ ٹکت لینے کی شرط پر ہی تو استعمال ہوئے اور انھوں نے آپکے ساتھ مل کر پنجاب میں موجود تحریک انصاف کی حکومت کو چلتا کیا۔ اگر وہ استعمال نہ ہوتے تو پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہی کیسے آتی۔ جب آپ نے ان کیساتھ ٹکٹ کے وعدے وعید کئے تھے تو لامحالہ ٹکت انھیں ہی ملنی تھی۔ لہٰذا یہاں کسی اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ، وغیرہ کیوں کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔
ٹرن آؤٹ کے حوالے سے میں نے الیکشن سے دو دن پہلے ایک پوسٹ کی تھی کہ آپ جس پارٹی کو چاہیں ووٹ دیں مگر الیکشن والے دن دھاندلی اور انتخابی نتائج کی پرواہ کئے بغیر اپنے گھروں سے نکلیں اور ووٹ کاسٹ کر کے عوامی طاقت دکھائیں تاکہ جو بھی نمائندے آئیں وہ خالصتاََ عوام کے ووٹ سے آئیں۔ زیادہ ٹرن آؤٹ سے تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
تحریک انصاف کی ضمنی انتخابات میں فتح کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت کو جو ڈنٹ پڑا ہے وہ بہت گہرا ہے یہ گھاؤ البتہ مندمل ہونے میں کافی وقت لے گا۔ میں نے تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے وقت بھی لکھا تھا کہ شہباز شریف کو بہت برے طریقے سے استعمال کیا گیا ہے جس سے نقصان مسلم لیگ ن کو ہی ہو گا۔ اب حل صرف یہ ہے کہ میاں نواز شریف وطن واپس آئیں اور مسلم لیگ ن کو سنبھالنے کیساتھ ساتھ پاکستانی سیاست میں اپنا کردار ادا کریں۔
رجیم چینج اور امریکی غلامی کے بیانیہ کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے جس پر اگلی تحریر شئیر کروں گا انشاءاللہ۔ فی الحال تو عمران خان کے بیانئے کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ عمران خان کا پیغام گلی گلی، کوچہ کوچہ، نگری نگری، ہر گاؤں، ہر دیہات پہنچ چکا ہے اور اسے پذیرائی ملی ہے۔ عوامی طاقت کا ایسا مظاہرہ پہلی بار دیکھنے کو ملا ہے جب اکیلا عمران خان صرف عوام کے دم پر تیرہ جماعتوں اور ریاستی حکومتوں کیخلاف لڑ کر فتح یاب ہوا۔
یہ الیکشن عمران خان نہیں جیتا بلکہ پاکستانی عوام جیتی ہے۔ میاں شہباز شریف کیلئے یہی نوشتہ دیوار ہے۔ شاید اسی عوامی طاقت کی اسٹرولوجیکل پیشن گوئی میں ایک ہفتہ پہلے کر چکا ہوں۔ پاکستان میں حکومتیں بنانے اور نکالنے کا حق صرف اور صرف پاکستانی عوام کا ہے عوام فیصلہ کرے امریکہ سمیت کسی بیرونی آقا کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی حکومتیں بنائے اور گرائے۔
عمران خان نے عوام کو چارج کر کے صرف اس کی بنیاد رکھی ہے ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے تمام سیاسی جماعتوں کو اس پر یکجا ہونا ہو گا کہ یہ ایک ارتقائی عمل ہے جس کو کچھ وقت درکار ہے۔ قوی امکان ہے کہ انشاءاللہ اب راج کرے گی خلق خدا۔