Saturday, 30 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amer Abbas
  4. Aap Daleel Ke Sath Khare Hon

Aap Daleel Ke Sath Khare Hon

آپ دلیل کیساتھ کھڑے ہوں

کل پشاور میں عمران خان کا جلسہ تھا۔ کسی نیوز چینل نے عمران خان کی تقریر براہ راست نہیں دکھائی۔ کوئی بات نہیں کچھ دنوں سے یہی چلتا آ رہا ہے لہٰذا حسبِ معمول پشاور جلسے میں بھی عمران خان کی تقریر نہیں دکھائی گئی۔ اس سے قبل عوام عمران خان کی تقاریر یوٹیوب اور سوشل میڈیا کے دیگر ٹولز پر دیکھ لیتے تھے مگر کل ایک اور عجیب ماجرا ہوا۔

جیسے ہی تقریر شروع ہوئی اچانک پورے ملک سے شکایتیں ملنا شروع ہو گئیں کہ یوٹیوب کو بند کر دیا گیا ہے۔ تقریر کے ختم ہوتے ہی یوٹیوب کو بحال کر دیا گیا۔ کوئی جمہوری حکومت ایسا نہیں کرتی۔ فاشزم میں بھی ایسا کبھی نہیں دیکھا اور نہ سنا۔ تحریک انصاف اس وقت سب سے بڑی اور مقبول ترین اکثریتی سیاسی جماعت ہے جس سے انکار ناممکن ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ مشرف کے دور میں میڈیا کو کچھ حد تک کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی۔ عدلیہ بحالی تحریک کا میں بھی بطور کارکن ایک معمولی سا حصہ رہا ہوں اس وقت میں ایک نوآموز وکیل تھا کیونکہ میرا ایل ایل بی ابھی تازہ تازہ مکمل ہوا تھا۔ مگر ایسا تو میں نے اس وقت بھی نہیں دیکھا تھا جیسا کل ہوا کہ مکمل میڈیا ہی بلیک آؤٹ کر دے۔

عمران خان کوئی مجرم نہیں ہے، کوئی اشتہاری نہیں ہے، کوئی سزا یافتہ نہیں ہے عدالت کی جانب سے بھی کوئی پابندی نہیں ہے پھر بھی موجودہ حکومت کی جانب سے یہ سب کچھ چہ معنی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک معروف اینکر پرسن نے عمران خان کا انٹرویو ریکارڈ کیا مگر عین موقع پر چینل نے اسے چلانے سے انکار کر دیا جس کی وضاحت بھی اس اینکر پرسن نے اپنی ایک ٹویٹ میں یہ کہتے ہوئے کی کہ جس طریقے سے عمران خان کا گلا گھونٹا جا رہا ہے یہی بات حقیقی انقلاب کو جنم دے گی۔

پشاور جلسہ میں عمران خان کی تقریر کے ختم ہوتے ہی یوٹیوب کا فنکشن بحال ہو گیا۔ یوٹیوب چینلز نے جیسے ہی عمران خان کی تقریر اپلوڈ کی ایک گھنٹے کے اندر ہر چینل پر ہزاروں اور لاکھوں کے حساب سے ویوز آ گئے۔ آج کا دور جدید دور ہے سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں کسی کی آواز کو دبانا اب تقریباً ناممکن ہے۔ بلکہ اگر کسی شے پر پابندی لگتی ہے تو وہی ویڈیو سب سے زیادہ دیکھی جاتی ہے یہ فطری امر ہے۔

عمران خان تو ایک برانڈ ہے اسے لوگ دیکھتے ہیں، سنتے ہیں، پسند کرتے ہیں لوگ اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر سنتے ہیں۔ مجھ سے شرط لگا لیجئے آپ عمران خان کو سب سے تھکے ہوئے چینل پر بٹھا لیجئے ایسا چینل جس کی ریٹنگ کبھی سینکڑوں سے آگے گئی ہی نہیں ہے اسی چینل کی ریٹنگ ایک دن کے اندر لاکھوں میں چلی جائے گی۔ یہ کیا ہے؟ یہی وہ چیز ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

آج ایک دوست نے مجھ سے سوال کیا "آپ ایک کالم نگار، تجزیہ نگار ہو مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ عرصہ سے آپکے کالم اور تحریریں عموماً عمران خان کے ہی حق میں ہوتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ کیا ایک کالم نگار یا تجزیہ نگار کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اپنی تحریروں میں جانبداری کا مظاہرہ کرے؟ آپ نے عمران خان کو بت بنا رکھا ہے"۔

میں نے لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھ کر جواب دیا۔

"عمران خان دیگر سیاست دانوں جیسا ایک عام سیاست دان ہے جس میں سو برائیاں ہیں جن کی میں نشاندہی بھی بہت بار کر چکا ہوں۔ وہ کوئی خدانخواستہ متبرک ہستی بھی نہیں ہے۔ دوسرا آپ نے درست فرمایا کہ واقعی میری تحریروں میں جھکاؤ عموماً عمران خان کے حق میں ہی ہو جاتا ہے جس کی ایک معقول اور ٹھوس وجہ ہے۔ میں جہاں کھڑا ہوں الحمد للہ کسی دلیل کیساتھ کھڑا ہوں۔ میں نے پہلے معروضی حقائق کا بہت عرق ریزی سے مطالعہ کیا ہے۔

اندھا مقلد نہ میں خود ہوں اور ناں ہی میرے قارئین ہیں۔ ایک لکھاری کا یہ فرض ہے کہ جو وہ مناسب سمجھتا ہے پوری دیانتداری سے اپنے قارئین کی درست سمت رہنمائی کرے۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ کیا اس وقت پوری سیاسی قیادت میں کوئی ایسا سیاست دان ہے جو ملک کو ترقی کی جانب لے کر چلے؟ آپ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کا تجزیہ کر کے مجھے بتائیں کہ دستیاب سیاست دانوں میں سے عمران خان سے بہتر کونسا آپشن ہے اور کیوں؟

دوست کا جواب ایک مکمل خاموشی کی صورت میں تھا"۔

سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عمران خان کوئی مہان سیاست دان نہیں ہے کہ لوگ اسکی ایک جھلک دیکھنے کو بیتاب ہیں۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ عمران خان نے اس خلا کو پُر کیا ہے جو دیگر سیاست دانوں نے چھوڑ دیا تھا بس اسی خلا کی وجہ سے عوام عمران خان کی طرف راغب ہوئے اسی بناء پر عوام اب عمران خان سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari