Shahpur Di Lari
شاہ پور دی لاری
یہ بات ہے 2002 کی تب میں سیکنڈ ائیر میں تھا۔ ہم اپنے شہر سے 37 کلومیٹر دور شاہ پورصدر کے کامرس کالج پڑھنے جایا کرتے تھے۔ ہمارے شہر سے شاہ پور صدر جانے والی بسوں کے متعلق جملہ مشہور تھا "شاہ پور دی لاری نہ بوہا نہ باری" اور حقیقت میں ایسا ہی تھا۔ بسوں کی حالت انتہائی خستہ ہوا کرتی تھی. 37 کلومیٹر کا فاصلہ بس 2 گھنٹے اور 40 منٹ میں طے کرتی تھی اور سردیوں میں ہم منہ اندھیرے گھر سے نکل جایا کرتے تھے کیونکہ سٹوڈنٹس کے دھکے سے ہی بس اسٹارٹ ہوتی تھی۔
وہ دوست جو لوکل ٹرانسپورٹ پر پڑھنے جاتے رہے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ بس کے عملہ اور سٹوڈنٹس کی آپس میں انڈیا پاکستان والی دشمنی ہوتی ہے اور سٹوڈنٹس کے اندر ایک عجیب سی اکڑ بھی ہوتی ہے شائد اس کی وجہ تعداد میں زیادہ ہونا ہے۔ ہم بھی زمانہِ طالب علمی میں ایسے ہی تھے۔ ایک دفعہ شاہ پور شہر کے طالب علموں کی لڑائی ہمارے روٹ کی بس کے کنڈیکٹر سے ہوگئی۔ ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز نے ان لڑکوں کو خوب مارا۔ دوسرے دن شاہ پور شہر کے لڑکے اس کنڈیکٹر کے گاوں کے پاس جا کھڑے ہوئے جیسے ہی وہ کنڈیکٹر ساہیوال سے شاہ پور والی بس پہ اپنے گاوں پہنچا سٹوڈنٹس نے اسے بس سے اتار کر خوب دھلائی کی اتنے میں ہماری بس بھی وہاں پہنچی میں نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر اپنے کالج فیلوز سے کہا "جناب ساڈی ضرورت تاں نئیں " انہوں نے کہا نہیں بھائی ہم کافی ہیں۔
اس کنڈیکٹر اور اس کے گاوں والوں نے میری شکل نوٹ کرلی۔ دوسرے دن میں نے کالج سے چھٹی کی اور مجھے شام کو دوست نے بتایا کہ وہ کنڈیکٹر چند مشڈنڈنے لے کر اڈے پر تمہارے بارے پوچھتا پھرتا تھا۔ خیر دوسرے دن اتوار تھی کالج سے چھٹی تھی۔ سوموار کو ہمیں ہمارے شہر سے نکلتے ہیں ڈرائیور نے بتایا کہ آج اس گاوں والوں نے آپ کے ساتھ لڑنا ہے۔ ہم سب سٹوڈنٹس نے بس میں ہی میٹنگ کی ہمارے ساتھ چند ڈگری کالج کے طلاب بھی شامل ہوگئے وہ ہم سے سینئیر تھے انہوں نے ہمیں کہا ہم تم لوگوں کے ساتھ ہیں ڈٹ جانا اور ان کی بدمعاشی آج ختم کردینا۔
جب ہم اس گاوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ ستر کے قریب لوگوں نے ڈنڈے سوٹے ہاتھوں میں لئے ہوئے تھے چند نے کتے بھی پکڑ رکھے تھے۔ ہم سب نے اپنی اپنی پینٹ سے بیلٹ نکال لئے اور ہاتھوں میں لٹکا لئے اور سب اپنے آپ میں خود کو ہیرو سمجھ رہے تھے بس سے اتر کر ہم ان لوگوں کی جانب بڑھنے لگے جب ہم ان کے قریب پہنچے تو پیچھے مڑ کردیکھا تو ڈگری کالج والے لڑکے بھاگے جارہے تھے ہم صرف چھ سات ہی بچ گئے تھے(مار کھانے کے لئے)۔
پھر وہی ہوا جو آپ سب کی نظروں کے سامنے اس وقت سین چل رہا ہے۔ ان سب نے ہماری خوب ٹھکائی کی، ہم میں سے جس کا جس طرف منہ آیا بھاگ نکلے اچھی خاصی مار کھانے کے بعد ہم بھاگ کر کالج پہنچے اور پرنسپل صاحب کو بتایا انہوں نے فوری ایکشن لیا اور وہ سب لوگ گرفتار ہوگئے۔ اس واقعہ کے کئی دن بعد تک ہم کالج جانے سے گھبراتے تھے۔
سبق: ہر معاملہ میں ماما بننے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ہر سوراخ میں طوطے ہی نہیں ہوتے کسی سوراخ سے سانپ بھی نکل آتے ہیں۔