Pakistani Rozay
پاکستانی روزے
سعودی عرب سمیت تمام عرب ممالک میں رمضان المبارک آتے ہی زندگی بدل جاتی ہے، تمام پرائیویٹ ادارے، دکانیں، بڑے مالز، ہر قسم کی انڈسٹری، عام مزدور مستری، ٹیکسی سروس، ورکشاپس وغیرہ نمازِ تراویح کے فوری بعد کھل جاتے ہیں اور سحری تک کھلے رہتے ہیں، اور پھر سب لوگ سحری کرکے نمازِ فجر کے بعد سو جاتے ہیں۔
چونکہ عرب ممالک میں گرمی شدید ہوتی ہے تو اس وجہ سے پورا سسٹم ہی بدل جاتا ہے، اے سی وہاں پہ عام پنکھوں کی طرح استعمال ہوتے ہیں، نماز فجر کے بعد سونے والے لوگ ظہر و عصر کے وقت اٹھتے ہیں، افطاری کی تیاری کرتے ہیں، افطاری کے فوری بعد ہر کوئی اپنے کام پر نکل جاتا ہے، اس طرح عرب ممالک میں رمضان المبارک انتہائی آسانی کے ساتھ گزر جاتا ہے۔
رمضان المبارک میں وہاں کے لوگوں کے رویے بھی بدل جاتے ہیں سختی کی جگہ نرمی لے لیتی ہے، شرطے یعنی پولیس بھی بلاوجہ تنگ نہیں کرتی اور ٹریفک پولیس والے بھی چھوٹی موٹی غلطی معاف کردیتے ہیں، بلکہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر پولیس والے خود افطاری کا سامان تقسیم کرتے نظر آتے ہیں، رمضان المبارک میں وہاں بہت زیادہ صدقہ خیرات کیا جاتا ہے جس کا زیادہ تر فائدہ پاکستانی بھکاری مافیا اٹھاتا ہے۔
پاکستان سے پورے پورے عمرہ زائرین کے گروپ عمرہ کے بہانے جاتے ہیں جو ہر نماز کے بعد حرمین شریفین کے باہر مانگتے نظر آتے ہیں، رمضان المبارک میں وہاں ہر چیز پر خصوصی سیل لگ جاتی ہے حتیٰ کے بعض فنانسگ کمپنیاں بغیر ایڈوانس اور سود کے گاڑیاں بھی دیتی ہیں، بڑے بڑے شاپنگ مالز پر 50-70 فیصد سیل لگتی ہے، کھانے پینے کی اشیاء بھی بہت سستی کردی جاتی ہیں، وہاں واقعی محسوس ہوتا ہے کہ رمضان رحمت کا مہینہ ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں حالات اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں، اکثریت عوام تو ویسے ہی رمضان میں روزہ نہ رکھنے کے لئے بیمار بن جاتی ہے، کچھ کو شوگر نہیں رکھنے دیتی اور کچھ کام کا بہانہ بنا لیتے ہیں، دنیا بھر میں مزہب سے اندھی عقیدت و محبت پاکستان میں زیادہ دکھائی جاتی ہے (لیکن باتوں کی حد تک)۔
رمضان آتے ہی بڑے مگرمچھ اشیاء خوردنوش ذخیرہ کرلیتے ہیں اور رمضان میں مہنگے داموں بیچتے ہیں (اور ہر نماز میں پہلی صف میں بھی نظر آتے ہیں)، سرکاری و پرائیویٹ افسران رمضان میں پہلے سے زیادہ غصہ میں دکھائی دیتے ہیں غصے کی وجہ پوچھیں تو بتایا جاتاہے "صاب کو آج روزہ یے" بڑے زمیندار حضرات کا بھی بلڈ پریشر ہائی نظر آتا ہے اور اپنے نوکروں کی پٹائی بھی کردیتے ہیں وجہ پوچھی جائے تو بتایا جاتا ہے "او جی اج چوئی صیب نوں روزہ اے" او جی اج ملک صیب نوں روزہ لگا پیا جے" ہم ایک دوسرے کی افطاریاں بھی دیکھا دیکھی کرواتے ہیں یعنی اگر میری کوئی افطاری کروائے گا تو میں بھی اس کو افطاری پہ بلاوں گا ورنہ دوستی جائے بھاڑ میں، افسرانِ بالا اپنے دفاتر میں راشن تقسیم کرتے ہیں (مگر اوپر کی کمائی سے)، امیر لوگ اللہ کو راضی کرنے کے لئے بڑی بڑی افطاریاں کرواتے ہیں باقاعدہ کارڈ چھپتے ہیں اور دعوت صرف امیروں کو دی جاتی ہے غریب تو افطاری کے بعد بچا ہوا کھانا شاپروں میں ڈال کرلے جاتے ہیں۔
ہمارے ملک میں رمضان المبارک کے پورے روزے رکھنا بہت ہی بڑا کارنامہ ہے کیونکہ گرمی، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، قتل و غارت، غربت، بے روزگاری، ذہنی دباو سے بھرپور معاشرہ میں روزہ رکھنے والے لوگ ولی اللہ سے کم نہیں ہیں۔