Likhari
لکھاری
کتاب لکھنا آسان نہیں۔ کتاب لکھنے سے قبل اس موضوع پر خوب مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ کئی کتب کنگھالنی پڑتی ہیں۔ انٹرنیٹ سے اس موضوع پہ مواد جمع کرنا ہوتا ہے اور مواد بھی وہ جو مستند ہو تاکہ کل کو آپ کی محنت رائیگاں نہ چلی جائے۔ کتاب لکھتے وقت ایک ایک لفظ کئی بار سوچ سمجھ کر لکھنا پڑتاہے کیوں کہ آپ اپنے الفاظ کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
کمپوزنگ بھی آسان نہیں، ٹائپ کرتے وقت صرف انگلیاں اور کندھے ہی نہیں تھکتے دماغ اور آنکھیں بھی کبھی کبھی ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔ کتاب لکھتے وقت دل و دماغ کا پرسکون ہونا بہت ضروری ہوتا ہے مگر جس دور میں ہم جی رہے ہیں یہاں قلبی اطمینان ناپید ہوچکا ہے۔ لکھنے کے دوران سوچ کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے لیکن پھر اسے یکجا کرکے واپس کمپیوٹر کی سکرین پہ لانا پڑتا ہے۔
کمپوزنگ کے بعد پرووف ریڈنگ بھی بہت مشکل کام ہے اپنا ہی لکھا ہوا کئی بار بغور پڑھنا پڑتا ہے۔ کتاب کا سرورق کا انتخاب بھی آسان نہیں، کئی ڈیزائن دیکھنے پڑتے ہیں اور ڈیزائینر کو بار بار تنگ کرنا پڑتا ہے مگر کیا کرسکتے ہیں کتاب کا چہرہ ہی کتاب کے اندر موجود مواد کے بارے پتہ دیتا ہے۔
ان تمام مراحل کے بعد اگلہ مرحلہ کتاب کی پرنٹنگ ہوتا ہے اور ایک لکھاری کے لئے یہ وقت بے صبری سے گزرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کب اس کے الفاظ کتابی لباس پہن کر اس کے ہاتھوں میں پہنچتے ہیں۔
کتاب کی پبلشنگ کے بعد جب اس کی آمد کا اعلان کیا جاتا ہے تو وہ لمحات لکھاری کو جذباتی کردیتے ہیں اور بعض اوقات آنسو بھی نکل آتے ہیں۔
کتابیں لکھنے سے لکھاری کا گھر نہیں چلتا نہ ہی اس سے لکھاری امیر ہوجاتا ہے۔ لکھاری کی سب سے بڑی دولت اس کے قارئین کی قیمتی رائے ہوتی ہے۔ اپنے قارئین کی محبت اور احترام ہی لکھاری کا خون کئی کلو بڑھا دیتا ہے۔
سب سے اہم بات لکھاری اگر لکھتا ہی اس پاکیزہ خاندان پہ ہو جو کائنات میں سخی الاسخیاء ہو تو پھر کتاب کی اجرت عزت و شہرت کے ساتھ ساتھ کربلاء سے قبولیت کی سند سمیت عطاء کی جاتی ہے۔ اسے پانے کے بعد تمام غم خوشی میں اور ساری تھکاوٹیں طاقت میں بدل جاتی ہیں۔