FIFA World Cup Qatar 2022
فیفا ورلڈ کپ قطر 2022
فیفا ورلڈ کپ 2022 شروع ہو چکا ہے، اس کی میزبانی اس بار اسلامی مُلک قطر کر رہا ہے، قطر عرب ممالک میں سب سے امیر ترین اور پُر امن ترین مُلک ہے، قطر میں غربت کی شرح صفر ہے، قطر کی عوام کا ہر فرد سالانہ 128000 ڈالر کماتا ہے جب کہ بظاہر سپر پاور امریکہ میں عام انسان سالانہ 66000 ڈالر کما پاتا ہے، ترکی کے شہر استنبول کے رقبہ کو اگر دو سے ضرب دی جائے قطر پورا ملک بنتا ہے۔
2010 میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ 2022 ورلڈ کپ اب قطر میں ہوگا، تب سے قطری حکومت نے اس ورلڈ کپ کی میزبانی کے لئے دن رات ایک کر دئیے، قطر نے فیفا ورلڈ کپ کی تیاری پر 230 بلین ڈالر خرچ کر دئیے ہیں اور اگر اب تک دنیا میں ہونے والے تمام فٹ بال ورلڈ کپ کے اخراجات کو جمع کیا جائے تب بھی قطر کے اس ایک ورلڈ کپ ایونٹ کا خرچہ زیادہ بنتا ہے، یعنی اگر دنیا کے امیر ترین آدمی اپنے تمام تر اثاثہ جات بیچ بھی ڈالے تب بھی قطر میں ہونے والے ورلڈ کا خرچہ زیادہ بنتا ہے۔
قطر نے فیفا ورلڈ کپ 2022 کے لئے آٹھ جدید ترین اسٹیڈیم تعمیر کروائے ہیں اور ان گراونڈز کو اس طرز پہ بنایا ہے کہ جس میں عرب کلچر کی جھلک نظر آتی ہے، اگر آسمان سے ان اسٹیڈیمز کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی خیمہ لگا ہو، یہ فٹ بال گراونڈز قطر کے دارلحکومت سے صرف 55 میل کے فاصلہ پہ تعمیر کئیے گئے ہیں اور دوحہ اور دیگر شہروں سے میٹرو ٹرین بھی چلائی گئی ہے۔
ان اسٹیڈئمیز کے باہر بڑے بڑے شاپنگ مالز، ہوٹلز بھی تعمیر کئیے گئے ہیں اس کے علاوہ قطر نے جدید طرز کے فین ویلیج، نئے اپارٹمنٹس، مارکیٹیں اور لگثرری ہوٹلز بھی بنائے ہیں تاکہ اٹھائیس دن کے لئے آنے والے مہمانوں کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔ دوحہ ائیرپورٹ اس وقت دنیا کا مصروف ترین ائیرپورٹ بن چکا ہے جس پر روزانہ آٹھ سے نو سو تک پروازیں اتر رہی ہیں۔
قطر نے یہ بارہ سال خوب محنت کی اور پیسہ لُٹا کر فیفا 2022 ورلڈ کپ کو دنیا کا مہنگا ترین ایونٹ بنا ڈالا، اتنا خرچہ کر کے قطر نے صرف اپنے آنے والے مہمانوں سے ایک گزارش کی کہ برائے مہربانی ہماری مذہبی و ثقافتی روایات کو نہ پامال کیا جائے، یہاں فاحشہ عورتیں نہیں لائی جائیں گی، یہاں کوئی بھی الکوحل والی ڈرنک پینے کی اجازت نہیں ہوگی، ہم جنس پرستی کا جھنڈا تک نہیں لہرانے دیا جائے گا، کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جو ہماری ثقافت کے برعکس ہو۔
قطر فیفا ورلڈ کپ کے سیکورٹی انچارج نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ ان 28 دنوں کے لئے ہم اپنا مذہب نہیں بدل سکتے، قطر کے اس اعلان کے بعد "قطر بائیکاٹ" کے نعرے سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر اٹھنے لگے، اور قطر کے اس اعلان کو آزاد خیالی اور انسانی آزادی کے خلاف کہا جانے لگا، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے لوگوں کو قطر جانے سے منع کر دیا، سوشل میڈیا پر ایک بھونچال آ گیا۔
قطری سیکورٹی انچارج نے مجبوراً ایک پریس کانفرنس کی اور کہا جو آنا چاہتا ہے آئے جو نہیں آنا چاہتا بے شک نہ آئے ہم اپنے فیصلہ پر قائم ہیں، اگر یورپی ممالک اس ورلڈ کپ کا بائیکاٹ کرتے ہیں تو قطر کو بہت بڑا نقصان ہونے کا خدشہ ہے اور قطر کی بارہ سالہ محنت پر پانی پھر جانے کا بھی امکان ہے مگر اس کے باوجود قطری حکومت کا اپنے فیصلہ پر ڈٹے رہنا قابلِ تحسین ہے، اگر یہی معاملہ ہمارے ملک میں ہوتا تو ہمیں امریکہ کی امداد نہ ملنے کا خوف ہی مار ڈالتا۔
اس وقت دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی آزاد خیال اور لبرل سوچ کا طبقہ قطر کے اس اعلان پر تنقید کر رہا ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ کھیل کو مذہب سے الگ رکھیں، آنے والے مہمانوں کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے، میرا سوال ہے ان آزاد خیال تنقید کرنے والے افراد سے کہ جب یورپ میں مسلمان عورتوں کے حجاب پر پابندی لگائی جاتی ہے اور راہ چلتی خواتین کے سروں سے حجاب کھینچ لئے جاتے ہیں تب آپ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ان کا ملک ہے ان کا قانون ہے، شراب نوشی اور زنا پر پابندی قطر کا قانون ہے، تو اب رونا دھونا کیسا؟