Fathers Day
فادرز ڈے
ایک مرد کو زندگی میں تین بار زیادہ عزت دی جاتی ہے یعنی جب وہ پیدا ہوتا ہے، پھر دولہا بنتا ہے اور پھر قبر میں اتارتے وقت، اس کے علاوہ مرد کی جدوجہد بچپن سے شروع ہوجاتی ہے، پڑھائی ختم ہوتے ہی نوکری کی تلاش تاکہ والدین اور بہن بھائیوں کی روزی روٹی کا بندوبست کرسکے۔
روزگار کی تلاش میں جوتے گھِسا کر آخر نوکری ملتے ہی اپنی تمام تر خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر والدین کے علاج کے لئے دوا کا بندوبست کرنا، چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنا اور بہنوں کا جہیز تیار کرنے میں جُت جاتا ہے، صبح سے شام تک خون پسینہ بہا کر شام کو جیب میں چند روپے لاتا ہے۔
راستے میں کہیں من پسند کھانے کی چیز نظر آجائے تو خود کو یہ تسلی دیتا ہے کہ پھر کبھی کھا لوں گا آج بہن کے جہیز کے لئے جو کمیٹی ڈالی ہوئی وہ دے لوں، ماں کی دوا ختم ہوئی پڑی ہے وہ بھی لے جانی ہے، والد کی چپل ٹوٹ گئی ہے چلو سب سے پہلے وہ خریدتا ہوں، اور اگر مرد محنت مزدوری کے لئے کسی عرب ملک میں رہتا ہے تو اس کی حالت تب دیکھنے والی ہوتی ہے جب 52 سینٹی گریڈ گرمی میں تپتے صحراوں میں اینٹیں اٹھا رہا ہوتا ہے، یا کسی بلند و بالا عمارت پر چڑھ کر شیشے صاف کر رہا ہوتا ہے۔
سارا دن عربیوں سے گالیاں کھانے کے بعد شام کو ماں کو کال کرکے بتا رہا ہوتا ہے "میں اتھے بہوں خوش آں" ماں کہتی ہے وہ تیرا بھائی کہہ رہا ہے میرے لئے آئی فون یاد سے بھیجنا، مرد ماں کا حکم ہنس کر بجالاتا ہے چاہے وہ خود کئی دن سے سوکھی روٹی کھا رہا ہو۔
والدین اور بہن بھائیوں کے بعد مرد کے فرائض میں بیوی اور بچوں کے حقوق بھی شامل ہوجاتے ہیں، اب بیوی سے بات کرے تو ماں ناراض، ماں سے زیادہ بات کرے تو بیوی کا موڈ آف، مرد بیچارہ ساری زندگی ان دو خواتین کی صلح کرواتا رہتا ہے مگر کامیاب پھر بھی نہیں ہوپاتا۔ گھر والوں کی تمام تر ضروریات پوری کرنے کے لئے اپنے جسم پر حد سے زیادہ مشقت کا بوجھ ڈالتا ہے، عید والے دن ماں باپ بہن بھائی بیوی بچے نئے کپڑے پہنتے ہیں اور مرد وہی پچھلے سال والا کاٹن کا سوٹ اور کئی ماہ سے ڈبے میں پڑی چپل نکال کر پہن لیتا ہے اور اپنے گھر والوں کو دیکھ کر خوش ہوتا رہتا ہے۔
پیدائش سے بوڑھاپے تک فرائض سر انجام دیتے دیتے نظر ختم ہوجاتی ہے، کمر جھک جاتی ہے، گھٹنوں کی ہڈیاں چٹخنے لگتی ہیں تو ایک گلاس پانی مانگنے پر جواب ملتا ہے"ایک تو آپ کے کام ختم نہیں ہوتے" اگر کبھی اولاد کے سامنے اپنی کسی خواہش کا اظہار کر بھی بیٹھے تو یہ سننے کو ملتا ہے "آپ نے ہمارے لئے آج تک کیا ہی کیا ہے؟"
آخر ہزاروں خواہشات سینے میں چھپائے، دل میں سخت الفاظ کے درد لئے مرد مر ہی جاتا ہے، جنازہ صحن میں پڑا ہوتا ہے اور جائداد کی تقسیم کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں، سب کو تب یہ حدیث یاد آتی ہے کہ جنازہ جلدی پڑھاؤ مردے کو زیادہ دیر نہیں رکھنا چاہیے، تب نہ کسی کو باپ کے حقوق یاد آتے نہ کوئی آیت یاد آتی نہ کوئی حدیث، بس کوشش ہوتی ہے جلد از جلد قبر میں اتار کر سکھ کا سانس لیا جائے۔
پیدائش سے وفات تک اپنے خاندان اور خصوصاً اولاد کے لئے ہر قسم کا دکھ درد سہنے والے باپ کی عظمت کو سلام۔ ہمارے ہاں جہاں ماں کی شان کی احادیث سنائی جاتی ہیں وہاں باپ کی عزت و احترام بھی سکھایا جانا چاہیے۔