Aik Ilteja
ایک التجاء
پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مذہب سےعقیدت بہت زیادہ رکھی جاتی ہے۔ پاکستان میں کئی مسالک سے تعلق رکھنےوالے مسلمان موجود ہیں مسلکی اختلافات ہونے کے باوجود ایک بات سب میں مشترک ہے وہ یہ کہ ہم منبر پہ آنے والے ہر اس شخص کا بے حد احترام کرتے ہیں جو ہمیں ہمارے دین کی تبلیغ کرے یا ہماری مقدس ہستیوں کی مداح سرائی کرتا ہو۔ ہم اپنے عقیدے سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ ہم اپنی کمائی کاایک بڑا حصہ دینی محافل پہ خرچ کرتے ہیں، خطیب، نعت خواں، ذاکر کو منہ مانگی فیس ادا کرتےہیں اور انکے شکر گزار الگ سے ہوتے ہیں۔
میں نے اسلامک مضامین کے ساتھ ساتھ معاشرتی مسائل پہ بھی کافی لکھا ہے، لیکن آج میں ایک التجاء ان مذہبی رہنماوں سے کرنا چاہتا ہوں جن کے ناز نخرے ہم نے ہمیشہ اٹھائے ہیں، جو ہمارے لئے رول ماڈل بن کر منبر پہ آکر قرآن و حدیث اور ذکر اہل بیت و صحابہ سناتے ہیں۔
برصغیر کے ہر علاقہ میں دربار و درگاہ موجود ہیں جن کے ایک گدی نشین ہوتے ہیں ان کو ہم اپنی زبان میں پیر کہتے ہیں، ہر دربار کے ہزاروں لاکھوں عقیدت مند ہوتے ہیں جو دربار میں سوئے ولی اللہ کے سالانہ عرس کے علاوہ سال میں کئی دفعہ اپنے پیر خانے پہ حاضر ہوکر اپنا روحانی علاج کرواتے ہیں اور اپنے پیر سے محبت کا ثبوت روپیہ پیسہ گندم چاول گائے بکرے بکریوں کی صورت میں دیتے ہیں ہم خدا رسولؐ کے بعد سب کچھ اسی پیر صاحب کو سمجھتے ہیں۔
آج میں ان محترم گدی نشینوں سے التماس کرتا ہوں کہ ہمارے ملک پہ بہت مشکل وقت ہے، ہم غریب لوگ ہیں سارا سال محنت سے کماتے ہیں اور پھر آپ کے سالانہ عرس پہ نذرانہ عقیدت پیش کردیتے ہیں آج ہم اور ہمارے بچے گھروں میں قید ہیں اور ہمارے پاس راشن نہیں ہے۔
مُرشد اپنے خزانے کا منہ کھولئیے، ہمیں معلوم ہے آپ کے سٹور میں بہت سی گندم چاول جمع ہوچکی ہے اور مریدین کی دی ہوئی نقدی بھی آپ کی تجوری میں وافر مقدر سے موجود ہے۔ مرشد اٹھئیے بلائیے اپنے چاہنے والوں کو اور سب کو کم سے کم ایک ماہ کا راشن عنایت کر دیجئے ہم وعدہ کرتے ہیں اگلے عرس پاک تک واپس کردیں گے۔
ہم میں سے ہر شخص اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلوانے کا خواہش مند ہے اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ہم دینی مدارس کی بہت زیادہ مالی معاونت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں مدرسہ کے خزانے میں زکوة خمس صدقہ خیرات سے آنے والی کثیر رقم جمع ہوجاتی ہے اور صدقہ کے بکرے الگ سے ڈیرے پہ باندھ دئیے جاتے ہیں، طالب علموں نے تو دال روٹی کھانی ہوتی اس لئے میری اپنے علماء کرام سے درخواست ہے کہ ہم اپنی محنت مزدوری کی کمائی سے آپ کی خدمت کرتے ہیں جب آپکو محفل میں دعوت دیتے ہیں تو آپ کی الگ بھی لفافے میں چھپاکر خدمت کرتے ہیں۔ قبلہ محترم آج ہمارے بچے دال روٹی کے لئے ترس رہے ہیں آپ تو خود کو مدینہ والے محمدؐ کا غلام کہلواتے ہیں ناں؟ قبلہ مہربانی کیجئے مدینے والے کی سنت ادا کیجئے اور مدرسہ کے اکاونٹ سے رقم نکلوائیے اور ہمیں آٹے کے تھیلے ہی خرید دیجئے۔
کون مسلمان ہے جو رسول اللہ ص سے محبت نا کرتا ہو؟ ہر مسلمان اپنے نبیؐ پاک سے عشق کے اظہار کے لئے نعت خوانی کی محفل کرواتا ہے اور محفل پہ اپنے ملک کے نامور نعت خوانوں کو دعوت دیتا ہے، نعت خوان حضرات پہلے تو نخرے کرتے ہیں پھر اپنے سیکرٹری کے ذریعے مرضی کی فیس طے کر لیتے ہیں اور بعض تو ریٹرن ائیر ٹکٹ کی ڈیمانڈ بھی کر دیتے ہیں۔ اے ہماری پیاری مدینے کے بلبلو ہمارے پیسوں سے آپ خوبصورت واسکٹ، ٹوپی اور رنگ دار کُرتے زیب تن کرکے ہماری محافل میں آتے ہواور جب ہم عشقِ مصطفیٰ ؐ میں مست ہوتے ہیں تو پھر آپ پہ پیسے پھینکتے ہیں اور ان پیسوں کی برسات کو سمیٹ کر آپ گھروں کو روانہ ہوجاتے ہو، آپ ثناء خوانانِ مصطفیٰؐ سے التجاء کرتے ہیں کہ قوم پہ کڑا وقت ہے مدد کیجئے، بنک بیلنس سے کچھ رقم اپنے اردگرد رہنے والے غریبوں پہ خرچ کیجئے، سوچئیے اگر یہ لوگ ہی نا رہے تو آپ کے ناز کون اٹھائے گا؟
میں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جتنا پیسہ اہل تشیع اپنے مذہبی پروگراموں پہ خرچ کرتے ہیں اتنا شاید ہی کوئی اور کرتا ہو، پورے سال کا کوئی ایسا دن نہیں جس دن پاکستان کے کسی شہر میں مجلس نا ہو اور اس مجلس پہ آنے والے ذاکرین فی مجلس من مرضی کی فیسیں لیتے ہیں، اہل تشیع عشق اہل بیتؑ میں سرشار ہوکر ذاکر صاحب کو منہ مانگے پیسے بھی دیتے ہیں اور شکرانے کے طور پہ ان کے ہاتھ بھی چومتے ہیں، ایسے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو لاکھوں روپے ایک دن کی مجلس پہ خرچ کردیتے ہیں، یہ ذاکرین کرام دیکھتے ہی دیکھتے امیر سے امیر تر ہوتے جاتے ہیں بڑا سا بنگلہ، نئے ماڈل کی گاڑی مہنگی جوتی اور قیمتی نفیس لباس ان کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے۔
میری ان تمام ذاکرین عظام سے ہاتھ جوڑ کر عرض ہے کہ پورا سال ہم آپ کو راضی کرتے ہیں آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے شاگردوں کو اور ڈرائیور کو بھی نیاز دیتے ہیں، بکرے کے گوشت کے علاوہ آپ کو کچھ کھلاتے نہیں، آپ کے پیر چومتے ہیں اور آپکی واہ واہ الگ سے کرتے ہیں، آج ہم پہ بہت مصیبت کا وقت ہے ہمارے پاس چند دن کا بھی راشن نہیں آپ خود کو مولاؑ کا سپاہی اور حبدار کہتے ہیں نا تو آئیے مولا علیؑ کی سنت پوری کیجئے بوری اٹھائیے اور ہم غریبوں تک پہنچائیے۔ سوچئیےاگر ہم ہی زندہ نا رہے تو آپکو مجالس کون پڑھائے گا؟ فیسیں کون دے گا؟ آپ کو تو اس کے علاوہ اور کوئی کام بھی نہیں آتا۔ ان دنوں تین زاکرین کو دیکھا ہے جو بڑھ چڑھ کر غرباء کے گھر راشن پہنچا رہے ہیں، جناب علی ناصر تلہاڑا، ملک علی رضا کھوکھر صاحب اور سید مرتضیٰ عاشق صاحب کو میرا سلام۔
ہمیں کیا فائدہ آپ کے پیر طریقت، رہبر شریعت، مکی، مدنی، نجفی، کربلائی، قمی، بلبلِ مدینہ، بحر المصائب، وکیل ولائت علیؑ، شاہین یورپ، شاہین پاکستان شہباز پاکستان ہونے کا جب مشکل میں آپ ہمارے کام ہی نا آئیں؟ ہمیں آپ کی لمبی لمبی تقریریں اور سریلے قصیدے سن کرکیا فائدہ دیں گے جب ہمارے بچے دو وقت کی روٹی کو ترستے مر جائیں۔