Yehi Meri Namaz, Yehi Mera Wazu
یہی مری نماز، یہی مرا وضو
لاہور کا بک فئر ختم ہوا، مَیں اسلام آباد لوٹ آیا۔ پانچ دن لاہور میں گزارے۔ لاہور کی گلی گلی گھومنے کی ضرورت اِس دفعہ یوں پیش نہ آئی کہ اُس کی گلیوں کے سب یار وہیں بک فئر کی ایک چھت میں جمع تھے۔ بلکہ سرگودھا، ملتان، لیہ، اور لاہور کے مضافات سے بھی ادبی دوستوں کی پلٹنیں چڑھ آئی تھیں۔ یہ سب دوست ہماری کتابوں پر حملہ آور تھے اور غنیمت کی لُوٹ میں ہم سے معانقے پاتے تھے۔ بخدا ایسی فتح کہ جس میں دِلوں پر حکومت ہوتی ہے، وہ ہمارے حصے میں آئی۔
جس کو دیکھیے ہماری خودنوشت اور دوسری کتابوں سے اپنی زنبیل بھرے جاتا تھا اور ہم اُنہیں شوقِ محبت میں گلے لگاتے تھے۔ ہمارے پاس مال و منال و حکومت و منصب تو نہیں، کتاب کی پونجی تھی اور وہی ہمیں قارئین کے دلوں کی سلطنت تک لے گئی۔ کس کس کا نام لیں، ایسے پیار کے جذبے سے ملتے تھے کہ آنسو خوشی سے چھلک جاتے تھے۔ مجھے قسم ہے اپنے پیدا کرنے والے کی یہ محبت ہمیں مولا علی اور آلِ محمدؑ کی مودت میں نصیب ہوئی ہے۔
حرف و قلم کا جوہر اُنہی کے در سے لیا۔ قسم کھا کر کہتا ہوں۔ آج تک شہرت اور دولت کے لیے اپنے قلم کو استعمال نہیں کیا نہ آئندہ کروں گا۔ چاہے پوری دنیا خلاف ہو جائے مگر جانتا ہوں اک زمانہ واقعی سچ سُننے کا خواہاں ہے۔ اس بار جو خوشی ہوئی بیان سے باہر ہے۔ مَیں نے دیکھا ایسے کئی دوست اور نوجوان جنہیں میرے خلاف بہکایا گیا تھا، وہ پلٹ پلٹ کر میری طرف آتے گئے اور محبت سے گلے ملتے گئے۔ ہم بھی اُنہیں دل کی صفائی سے ملے۔ آگے پھر اُن کا مقدر۔
اِس بک فئر میں سب سے زیادہ ہجوم دیکھنے میں آیا۔ بک کارنر جہلم، سنگِ میل اور ریڈنگز میں بہت خلقت ٹوٹی۔ مجھے ایسی خوشی ملی کہ بیان سے باہر ہے۔ انشا اللہ نئی نسل کتاب سے منسلک ہو کر رہے گی۔
امر شاہد نے چند احباب کے ساتھ صلح کا بھی ڈول باندھا، جن میں ایک حاشر صاحب تھے۔ حاشر صاحب کی نسبت اب ہمارے دل میں بالکل کدورت نہیں ہے۔ ہماری اُن سے گزارش ہے، آئندہ بھی ہمیں سب کچھ منظور ہے مگر اہلِ بیتِ رسول اور مولا علیؑ کی بابت اموی اور مغربی سائنس کی تجربہ گاہ کے اخلاقی اصولوں کو صرفِ نظر کریں گے۔ یعنی کچھ تحقیق کی توجہ دنیا کے دیگر علوم پر بھی دلائیں گے۔
قصہ مختصر لاہور بک فئر پاکستان کے تمام اشرافیائی ادبی فیسٹول بلکہ شوبز کے فیسٹول سے بہتر تھا۔ اِس بار سنگِ میل کے افضال صاحب سے بھی ملاقات ہوئی بھی اور ہم نے اُنہیں بتایا کہ کراچی کی آرٹ کونسل کا ایک لفنٹر کن سیڑھیوں سے اوپر کی منزل تک گیا ہے۔ ہمارے اِس انکشاف پر اُن کی دونوں آنکھیں کافی دیر وا رہیں۔
باقی باتیں بعد میں۔