1.  Home
  2. Blog
  3. Ali Akbar Natiq
  4. Taxi Driver Aur Iqbal Ka Tasawuf

Taxi Driver Aur Iqbal Ka Tasawuf

ٹیکسی ڈرائیو اور اقبال کا تصوف

کل رات ایک بجے جیسے ہی مَیں نیوجرسی ائیر پورٹ سے باہر نکلا، ایک پاکستانی پنجابی لڑکا سامنے کھڑا پایا، دیکھتے ہی بولا جی کہاں جائیں گے؟ مَیں نے کہا، یہیں لونگ آئی لینڈ تک، اُس نے کہا۔۔ اچھا یعنی نیویارک دے دوسرے کونے؟ ایک سو پینتیس ڈالر ہوں گے۔

مَیں نے کہا، پہلے دوست کو فون کرنا ہے۔ اُس نے اپنا فون میرے حوالے کیا اور بولا کر لو، میں نے ساجد سموں کو فون کیا، اور بتایا کہ اِتے زیادہ ڈالر مانگ رہا ہے، ساجد بھائی نے فرمایا، آجکل یہی بھاو تاو چلتا ہے، پینتس زیادہ ہیں مگر آ جایے بس۔ وقت بہت ہو گیا ہے۔

لیجیے مَیں اُس کے ساتھ ہو بیٹھا۔ اب جو ڈرائیور صاحب باتون میں کھلے تو پتا چلا ایک تو حضرت میاں نو سال یونیورسٹی آف لاہور میں پڑھتے رہے ہین۔ یعنی وہیں بستر جمائے بیٹھے رہے اور یونیورسٹی کو فیسیں دیے جاتے رہے۔ دوئم علامہ اقبال کو پیغمبر سے تھوڑا ہی اوپر تصور کرتے ہیں۔

سوئم اقبال کے باوزن شعروں کو بے وزن بنا بنا کر سناتے رہے اور مجھ سے اُن کی اپنے مطلب کے مطابق تشریح کروانے کی کوشش کرتے گئے۔ جس پر مَیں اتفاق بھی کرتا گیا کہ اللہ جانے ڈالر اور نہ بڑھا دیں۔ چہارم صوفی شاعروں کو دینِ اول و آخر سمجھتے تھے اور صوفیوں میں بھی صرف اقبال ہی تھا۔

اُس کی صوفیانہ باتوں سے ذرا سی مجھے راہ ملی تو مَیں نے پوچھا یہاں بھائی خوش تو ہو نا؟ دیکھو کیسی صاف ستھری سڑکیں ہیں۔ ہر شے قانون میں ہے، بولا سڑکوں کو کیا چاٹنا ہے، اور قانون کی بات یہ ہے کہ قانون صرف اللہ کا ہے۔ اپنے کیے پر پچھتاتا ہوں۔ اگر کچھ پڑھ بھی لیتا تو آج ٹیکسی کا ہار گلے میں نہ ہوتا۔

مَیں نے کہا فرض کیا پڑھ لیتے تو آپ کے خیال میں پاکستان میں کیا توپ چلا لیتے۔ کہنے لگا بھائی توپ نہ چلاتا کم از کم اقبال اکیڈمی کا ڈائریکٹر تو بن ہی جاتا اور دنیا میں اقبال کا تصوف پھیلاتا۔ مَیں نے کہا دیکھ بھائی تُو اِدھر ٹیکسی پر ہی ٹھیک ہے۔ ورنہ پاکستان کو ٹھوکنے والوں میں ایک اور کا اضافہ ہو جاتا۔ اتنے میں ایک سٹور نزدیک آ گیا، اُس نے کہا کیا کھاو گے؟

مَیں نے کہا اگر اُس کے عوض مزید اقبال کے شعر نہیں سناو گے تو ایک کولڈ ڈرنک پلا دو۔ اُس نے دو کولڈ ڈرنک وہاں سے لیں اور پھر سفر شروع کیا۔ اِس عرصے میں البتہ اُس نے وعدہ پورا کیا اور اقبال کی بجائے اپنے بے وزن شعر سنائے۔ سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ سفر کے خاتمے پر مجھ سے صرف سو ڈالر لیے۔ باقی کے پیسے معاف کر دیے۔ کہنے لگا، مَیں چونکہ شاعروں کے حالات سے واقف ہوں اِس لیے آپ سے منافع نہیں کماوں گا۔

واقعی کمال آدمی تھا۔ اللہ اُسے جزا دے۔ کہتا تھا بہت سے ڈالر کہین ہاتھ آئیں تو پاکستان لوٹ جاوں اور پھر کبھی اس تنہائی کے جنگل میں نہ آوں۔ اے امریکہ آ کر محنت مزدوری کرنے والو۔ جی صدقے یہان آو مگر دیکھیےگا اِدھر ہر پردیسی آُداس پھرتا ہے۔

Check Also

Muhabbat Se Kab Tak Bhago Ge?

By Qurratulain Shoaib