Okara Ke Dost
اوکاڑا کے دوست
جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُن کے ہوتے ہوئے دشمنوں کی کیا ضرورت ہے؟ مکمل دائیں جانب مسعود احمد، جن کے اوکاڑا میں ہوتے ہوئے کسی بھی دوسرے شاعر کا نقارہ نہیں بج سکتا۔ اِسی لیے پہلے ظفراقبال کو اوکاڑا چھوڑنا پڑا اور بعد میں مجھے بھی۔ لوگوں کی اپنے شہر وں میں طُوطی بولتی ہے، مسعود احمد صاحب کا اوکاڑا میں طُوطا بولتا ہے۔ مَیں جب بھی شہر میں جاوں ،پہلے اِنھی سے شہر کا انٹری پاس لیتا ہوں یعنی مابدولت کے چرن چھوتا ہوں تاکہ وہاں سے باعزت وآپس بھی ہو سکوں ۔
ظفر اقبال بھی پچھلے چالیس سال سے ہر ہفتے اِن کی ایک غزل اپنے کالم میں لگانے کی ڈیوٹی نبھا رہا ہے۔ قصہ مختصر، مسعود صاحب شہر کے ادبی مائی باپ ہیں ۔ اُن کے ساتھ شفقت رسول قمر ہیں، پنجابی کے شاعر اور آج کل شہر کے مجسٹریٹ ہیں۔ مجھے تمام وہ نصیحتیں کرتے ہیں جو ناقابلِ عمل ہیں، یعنی اِن کا کہنا ہے کہ مَیں ہر اُس شخص کی عزت کروں جو میری عزت نہیں کرتا کیونکہ ان کے مطابق میری گورنمنٹ کی نظر میں معتبر ٹھہرنے اور ایوارڈ یا عہدہ حاصل کرنے کی یہی صورت ہے۔ مَیں اِن سے کہتا ہوں حضرت عہدوں اور ایوارڈوں سے عزتیں ملتی نہیں پامال ہوتی ہیں، اپنوں کی بھی اور دوسروں کی بھی۔
لہٰذا جو چار دن زندگی رہ گئی ہے اِسے کیوں خواہ مخواہ طوق کے عوض بیچ دوں ؟ مگر اُنھیں میری بات اور مجھے اُن کی بات سمجھ نہیں آتی۔ میرےبائیں جانب کاشف مجید صاحب ہیں، شاعر بے بدل ہیں، پروفسیر ہیں اردو کے اور گورنمنٹ اوکاڑا کالج میں ہوتے ہیں۔ بالکل اچھے آدمی ہیں اِن کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے میں مزا آتا ہے۔ آج کل میری عزت بھی کر رہے ہیں اور اِس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ۔
اِن کے ساتھ ہی لالہ احمد شہزاد بیٹھے ہیں، بچپن کے دوست ہیں، اِسی دوستی کے عوض اوکاڑا کے دیگر شاعروں سے ایک دو بار مار کھاتے بچے ہیں ۔ جسے یار، غار کہنا چاہیے وہ یہی ہیں ۔اوکاڑا بیت المال میں نوکری کرتے ہیں اور وہاں کے زکات فنڈ سے ہی تنخواہ لیتے ہیں جو اِنھیں اچھا نہیں لگتا۔ ایم اے اردو کیے بیٹھے ہیں ۔ اگر کوئی صاحب میرے اِس یار کو اوکاڑا ہی میں کسی دوسرے سرکاری محکمے میں چھوٹی موٹی ملازمت دے دے تو مَیں اُس کا شکر گزار ہوں گا۔
جب بھی اوکاڑا جاتا ہوں اِس کے طعنے سنتا ہوں مگر میرا یہ یار نہیں جانتا کہ ناطق بچارا صرف شاعر ہے، مصاحبِ شاہ نہیں ہے، نہ جماعتِ اسلامی کا سدا بہار ممبر ہے کہ ایک پل میں فون کر ے اور نوکری لگوا دے۔ خیر لالہ مجھے بہت پیارا ہے۔ اگر کسی کی دسترس میں کوئی جاب ہو تو اِسے ضرور دے۔
خیر یہ تمام دوست باکمال ہیں ۔ مَیں کبھی اِن سے گریز نہیں کر سکتا ،جیسے موت سے فرار نہیں کیا جا سکتا۔ پچھلے بارہ سال سے اوکاڑا میں میرے ساتھ کوئی شام منانے کی ترکیبیں بنا رہے ہیں مگر کوئی صورت پیدا نہیں ہو رہی۔ یعنی یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اُس کے لیے ہر بار مجھ سے اجازت مانگتے ہیں اور مَیں یہ غیر شرعی کام کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اب اِنھیں کون سمجھائے غریب اور سادہ لوح دیہاتی لوگ اپنے مرغے صرف باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کو ذبح کر کے کھلانے کے لیے پالتے ہیں، اپنے بچوں کے لیے دال ہی چلتی ہے۔
لہٰذا ناطق ہند سندھ میں چاہے جہاں چاہے تقاریب کرواتا پھرے، اوکاڑا والوں سے صرف کوسنے ہی سُن سکتا ہے۔ لیکن میاں کوئی بات نہیں، پھر بھی یہ میرے اپنے ہیں ۔ ایک دن مجھ سے بغیر پوچھے ہی میری عزت کرنے لگیں گے۔