Lahore, Okara, Sahiwal Aur Hum Log
لاہور، اوکاڑا، ساہیوال اور ہم لوگ
مَیں وآپس اسلام آباد کی بستی میں آن پہنچا ہوں۔ اب قصہ یہ ہے کہ پچھلے کئی شب و روز لاہور، اوکاڑہ یعنی اپنے گھر اور ساہیوال میں گزرے، جہاں کئی واقعات پیش آئے۔ لاہور میں LLF یعنی لاہور لٹریری فیستیول میں میری نئی کتاب " سفیر لیلیٰ " پر ایک پروگرام تھا، وہ بھگتایا، اور اِس ادبی میلے میں بہت دوستوں سے ملاقات بھی ہوئی۔
وہیں کچھ ایسے جن بھوتوں کی شکلیں دیکھنے کو ملیں جن کا کام ہی ادبی میلوں میں بے ادبی کی تقریریں جھاڑنا ہے۔ اُن کی کتاب (اگر وہ لکھ ہی لیں ) پیچھے رہتی ہے اور وہ خود آگے ہوتے ہیں۔ یعنی اپنی کتاب سے زیادہ اپنی پریزنس کو ترجیح دیتے ہیں۔ مَیں نے اب وہاں ایسے کسی نوابادیاتی مشٹنڈے، یا سوکالڈ جعلی صوفی نظاموی یا بدتمیز قسم کے متشاعر پروفیسر کو منہ نہیں لگایا۔ اِن کا گھٹیا پن اب کھل کر میرے سامنے آ چکا ہے، اور کوشش کروں گا اُنھیں اِن کی اوقات میں وآپس لے جایا جائے۔
وہیں کچھ اچھے لوگ بھی ملے جیسے عامر جعفری صاحب، منیزہ نقوی، اسامہ صدیق، افضال احمد سید، تنویز انجم، انعام ندیم، خدا اِنھیں جیتا رکھے۔ بہت سے قارئین کے ساتھ ملاقاتیں ہوئیں، خاص کر نوجوان ادبی دوستوں کے ساتھ۔ یہاں اکثر دوستوں نے میری نئی کلیات خریدی۔ اُس سے دل بہت شاد ہوا۔ مزے کی بات یہ کہ ریڈنگ کے اسٹال پر میری جتنی بھی کتابیں موجود تھیں سب بک گئیں۔ دیکھ لیا نا آپ نے زمانے والو، علیؑ والوں کی باتیں بھی محبت کے مول بِکتی ہیں۔
میلے کے دوران ہی شام کو ہم نے علی جعفری کے ہاں لارنس روڈ پر امامِ زمانؑ اور مولا علیؑ کی شان میں قصیدہ کہا اور جی خوش ہوا۔ مومنین نے بہت داد دی۔ اُس کے بعد ہم اپنے دیس اوکاڑہ پدھارے۔ یہ عجب دل کی بستی ہے کہ یہاں ہماری کوئلیں بستی ہیں، بلبلیں ہنستی ہیں، مطربا ہوائیں چلتی ہیں، یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر علی اکبر ناطق شاعر، ادیب، گستاخ کی بجائے فقط باورا چھوکرا رہ جاتا ہے۔
اب یہاں یہ ہوا کہ میاں کاشف مجید اور اُن کی بیگم عزیز یعنی یاسمین کاشف اور سیدہ فروہ نقوی نے مل کر گورنمنٹ گرلز کالج میں ہمارے لُطف میں ایک تقریب جما دی۔ معروف شاعر مسعود احمد، شفقت رسول قمر، لالہ احمد شہزاد میاں، احمد جلیل اور شکیل امجد بھی ہماری تعریفیں کرنے کو ساتھ ہو لیے۔ تقریب واللہ بہت عمدہ تھی۔ ہم نے وہاں اپنی نظمیں بھی سنائیں اور دانشیں بھی بکھیریں مگر ذرا سنبھل کر۔
وجہ اِس کی یہ ہے کہ ہر وہ آدمی جسے چار بندے عزت دے دیں وہ یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ دانشور بھی ہے اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ سالا تو نِرا خلیل الرحمن قمر نکلا۔ چنانچہ اس سے بچنے کے لیے ہم نے ذرا احتیاط سے زباں کھولی۔ کالج کی تمام انتظامیہ اور تقریب کے سردارون کو میرا سلام پہنچے، چلو ناطق کو اپنے شہر میں بھی عزت ملنے کا آغاز ہوا، وہ بھی گرلز کالج سے۔ بھائیو دیکھ لو مردوں کے لیے کیا شرم کا مقام ہے؟ بلکہ ڈوبنے کا۔
اِسی اثنا میں ہمیں خبر ملی کہ سید منظر نقوی اِسی شام اوکاڑا تشریف لا رہے ہیں، فوراً شفقت رسول قمر، احمد شہزاد لالہ، مسعود صاحب اور مَیں نے چار سر جوڑے کہ بھئی نقوی صاحب کا استقبال ایسے کیا جائے جیسے اُن کا ہمارے دل میں مقام ہے، چنانچہ وہی شام اُن کے نام منانے کا بندوبست شروع کیا، اور دوستوں کو اُسی وقت اطلاع دی۔ لہذا شام تک پچاس کے قریب معززینِ شہر جمع ہو گئے اُن میں دس عدد شاعر بھی تھے۔
شام کو نقوی صاحب آئے، شفقت رسول قمر کے گھر مشاعرہ ہوا۔ اُن کی شان میں اتنی اچھی محفل ہوئی کہ پہلے ایسی نہ ہوئی تھی، شاہ صاحب نے عمدہ کلام پڑھا اور بہت داد لی۔ مسعود صاحب نے صدارت کی۔ رات بارہ بجے یہاں سے مَیں شاہ صاحب کو اپنے گھر لایا۔ رات بسر کی اگلئے دن ہمارے دوست شہزاد جوئیہ بہاولنگر سے آئے، گُڑ ساتھ لائے۔ بہت دیر گھوما۔ تب کھانے کے بعد وہ جلدی وآپس ہو گئے اور نہ رُکے تو ہم نقوی صاحب کو اپنا کالج دکھانے لے گئے، اب وہاں کاشف مجید صاحب پڑھاتے ہیں۔ وہ بھی ساتھ تھے۔
کالج دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر لالہ کو پکڑا اور سب ساہیوال نکل پڑے۔ ساہیوال سید نعیم نقوی کے ہاں ہماری کئی محفلیں برپا ہو چکی ہیں، کیا غضب کے دلدادگاں انسان ہیں۔ ہماری سب کتابیں پڑھے بیٹھے ہیں۔ ذکریا خان اور راو شفیق صاحب اور علی وارث کے علاوہ بھی بہت دوست جمع تھے۔ اُن کے دونوں بیٹے مصطفیٰ اور مجتبیٰ میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں۔
بلاول سے ملتے رہتے ہیں اور مجھ سے مسلسل اصرار کرتے ہیں کہ مَیں بھی بلاول سے ضرور ملاقات کروں اور اُن کے لیے ضرور لکھا کروں۔ مَیں نے کہا میرے بھائیو ملاقات تو شاید بلاول ہم سے کرنا پسند نہ کرے یا اُنھیں ہماری ملاقات پسند نہ آئے۔ لہذا اِسے رہنے دو، لکھنے کے متعلق یہ ہے کہ اول تو ہمارے لکھے کو کون لفٹ کراتا ہے، اور اگر تم سمجھتے ہی ہو کہ ہمارے لفظ کی بھی کوئی اوقات ہے تو پھر بات یہ ہے کہ مَیں پہلے ن لیگ کا حقا دشمن تھا، اب عمران کا بھی ہوں۔ اب ظاہر ہے جو کچھ بھی اِن کے خلاف لکھوں گا اُس کا فائدہ بلاول کو ہی ہو گا۔
خیر نعیم نقوی کے ہاں سید منظر نقوی نے بہت عمدہ کلام پڑھا۔ بہت دوست جمع ہو گئے، کھانا بھی وہیں کھایا، پہلے یہی پروگرام عین روزوں میں چلتا تھا، جس میں روزے کھائے جاتے تھے۔ اب کے صرف کھانا کھایا گیا۔ رات نکل آئے۔