Ifra Bukhari
عفرا بخاری
عفرا بخاری صاحبہ تین دن پہلے فوت ہو گئیں۔ بہت دِنوں سے بیمار تھیں۔ ہمارے بہت شفیق دوست اور افسانہ نگار، شاعر، براڈ کاستر عامر فراز کی والدہ تھیں۔ یقیناً اُن کی موت سے عامر فراز صاحب کو بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ وہ عفرا کے ساتھ بہت منسلک تھے اور اُن کی وجہ سے ایک رات بھی شہر سے باہر گزارنا پسند نہیں کرتے تھے۔ مجھے بھی کئی بار اُن سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ایسی مدہم لہجے کی اور شفیق خاتون جسے افسانے کے آرٹ پر پوری دسترس تھیں، مَیں نے اپنی پوری زندگی نہیں دیکھی۔
اُن کے افسانوں میں انسانی نفسیات کے تارو پود ایسے بکھرے ہوتے ہیں، جیسے انسان کے جسم میں نظر نہ آنے والی مگر طاقت ور اُس کی روح ہو جس پر جسم کی فعالیت کا انحصار ہوتا ہے۔ مَیں بطور افسانہ نگار کہہ سکتا ہوں۔ عفرا صاحبہ کہانی لکھنے کے عمل سے بالکل ایسے ہی گزرتی تھیں کہ اُن کے ذہن میں پنپنے والے احساسات کاغذ پر آنے سے پہلے ایک تمثیل کی شکل میں اُس کے سامنے رقص کناں ہوتے تھے، جنھیں بعد ازاں وہ محتاط لفظوں کی صورت گری سے کاغذ پر منتقل کرتی تھی۔
ایسی صورت میں کہانی اپنی ڈگر سے نہیں ہٹتی، جبکہ کہانی میں پیش آنے والی گاہ گاہ نفسیاتی اُلجھنیں گویا اُس نے اپنی مٹھی میں بند کی ہوتی تھیں، جنھیں اپنی اپنی جگہ رکھتی جاتی تھی۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ عفرا بخاری اپنے افسانوں کی فطری صناع تھی۔ احساس، درد، کہانی پن، تجسس اور نثر کی روانی اُس کی کہانی کے لازمے ہیں۔ اِن سب باتوں کے باوجود افسانہ پڑھتے ہوئے کہیں ایسا نظر نہیں آتا کہ مصنفہ نے کرداروں پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہو۔ وہ بالکل اپنی آزاد حیثیت میں کہانی کے فرد ہوتے ہیں۔ غرض یہ کہ وہ ایک بڑے پائے کی افسانہ نگار تھیں۔
مجھے اِن کے تمام افسانے پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے، اور کہہ سکتا ہوں اُن کا آرٹ تاریک راہوں میں مارے جانے والے اور بکھرے ہوئے انسانوں کا معاشرتی اور سماجی مقدمہ ہے۔ خاص کر خواتین اور نوجوانون کو یہ افسانے اس لیے بھی پڑھنے چاہئیں کہ اُن کی زندگی کی راہوں میں پیش آنے والے حادثات اُنھیں جلد تھکا کر گرا دیتے ہیں۔ اور یہ افسانے اُنھی حادثات کی نفسیاتی تصویریں ہیں جنھیں وقت سے پہلے جان لینا بہت ضروری ہے۔
ان کا پانچواں اور آخری مجموعہ سنگِ سیاہ ہے جسے عکس پبلی کیشن نے لاہور سے چھاپا ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ اردو میں کسی ایک خاتون افسانہ نگار کا نام لو جسے دردمندی کے ساتھ لکھنا آتا ہے، تو مَیں عفرا کا نام لوں گا۔ خدا اُن کو گریق، رحمت کرے اور عامر فراز بھائی کو اور اُن کی بہنوں کو صبر دے کہ اس کے سوا چارہ نہیں۔