Aulad e Ali Kahan Rahi
اولاد علیؑ کہاں رہی
اِس بار مدینہ آنے کا مقصد زیادہ تر اپنے ناول (کوفہ کے مسافر) کی بابت کچھ ایسی معلومات حاصل کرنا تھیں، جو عام مسلمانوں سے اوجھل ہیں۔ اِنھی میں ایک نہایت اہم اور با معنی چیز جہنیہ تھی۔ اگر مَیں اِس کی اہمیت کے بارے میں بتائوں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جگہ آلِ محمدؑ کا دوسرا مدینہ تھی۔ جی ہاں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں، خلفائے ثلاثہ کے دور میں مولا علیؑ اور اُن کی اولاد کہا ںقیام پذیر رہی؟ جی اِسی علاقے جہنیہ میں، جسے ینبع النخل کہتے ہیں۔
معاملہ یہ ہوا کہ جب مَیں ناول لکھنے بیٹھا تو اندازہ ہوا کہ یہ انتہائی اُلجھا ہوا کام ہے۔ لہذا مَیں نے امامؑ کے ساتھیوں کی تلاش شروع کی کہ وہ کون تھے اور کہاں سے تھے؟ مجھے چار لوگ اُن میں ایسے ملے جو نہ تو بصرہ کے تھے، نہ کوفہ کے تھے اور نہ مکہ مدینہ کے تھے۔ اِن کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ جہنیہ کے تھے۔ جب مَیں نے تاریخ سے جہنیہ کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ مدینے کے قریب ایک بستی تھی۔ لیکن میری ہزار کوششوں کے باوجود ایسی کوئی بستی مدینہ کے نزدیک نہیں تھی۔
آخر کئی مہینوں کی کوششوں کے بعد خبر ملی کہ جہنیہ ایک قبیلے کا نام ہے، جو موصل میں تھا۔ جسے حضرت علیؑ نے اپنی خلافت کے زمانے میں عرب میں ریڈ سی کے کنارے ایسی جگہ لا آباد کیا جو اُنھوں نے خود بسائی تھی۔ یہ جگہ سمندر اور پہاڑوں کے دامن میں تھی۔ یہاں پانی کے چشمے تھے۔ خلفائے ثلاثہ کے دور میں حضرت علیؑ نے وہاں جا کر کھیتی باڑی شروع کی پھر اپنی ساری اولاد کو وہاں لے گئے اور اُس کو باغوں اور کھیتوں سے بھر دیا۔
یہ بستی مدینہ سے تین سو کلومیٹر دور ہے۔ اور آج کل اِس کا نام ینبع النخل ہے۔ یہاں ویسے تو چھوٹے بڑے کئی چشمے ہیں اور بیشتر کنویں ہیں۔ جنھیں مولا علی نے کھودا تھا۔ لیکن اِن میں تین بڑے چشمے ایسے ہیں کہ اُن کے نام عینِ علیؑ، عینِ حسنؑ، اور عینِ حسینؑ ہے۔ اصل میں جب مَیں پاکستان سے چلا تھا تو اِس جگہ پہنچنے کا مصمم ارادہ تھا۔ لیکن عین اُس جگہ کیسے پہنچوں گا یہ میرے لیے مسئلہ تھا۔ کیونکہ اگر ٹیکسی پر جائوں بھی تو وہ شہر میں جا کر چھوڑ دے گا اور مجھے خود اندازہ نہیں کہ کہاں ہیں۔
اِنھی سوچوں میں گم تھا کہ ایک دوست کا میسج آیا۔ اُس نے کہا ناطق صاحب مَیں آپ کو پڑھتا رہتا ہوں۔ میرا نام رضوان راجہ ہے۔ مَیں ینبع میں ہوتا ہوں، اگر آپ یہاں تشریف لے آئیں تو آپ کو بہت سی زیارات کرائوں۔ مَیں تو خوشی سے اچھل پڑا اور کہا بھائی ضرور آنا ہے۔ لہذا اُسے جمعہ کے دن کا وقت دیا۔ دو دن پہلے جب مَیں نکلنے لگا تو مجھے اندازہ ہوا کہ کوئی ٹیکسی والا جانے کو تیار نہیں۔ صرف عرب ٹیکسی ڈرائیور تیار ہوتا تھا اور وہ پیسے بہت مانگتا تھا۔
آخر بڑی مشکلوں سے ایک ٹیکسی ڈرائیور ملا۔ اُس نے کہا دو سو ریال لوں گا۔ اور صرف ینبع البحر میں اُتاروں گا۔ مَیں نے کہا بھئی لے لینا چاہے جتنے لے لو۔ اُس نے تین مزید عربی لڑکے ساتھ بٹھائے اور چل دیا۔ اور دس بجے کے قریب نکل پڑا۔ چونکہ راستے میں بدر کا میدان بھی پڑتا تھا، جو اگرچہ ینبع کے راستے سے ذرا ہٹ کے تھا۔ لیکن چونکہ اُس نے جمعہ پڑھنا تھا اور اُس مسجد میں پڑھنا تھا جہاں بدر میں رسولِ خدا کا جنگ کے دوران خیمہ لگا ہوا تھا۔ وہ جگہ اب مسجد بنا دی گئی تھی۔ مَیں نے چونکہ بدر میں بھی جانا تھا اِس لیے بہت خوش ہوا اور سوچا چلو اِنھی پیسوں میں بدر بھی ہوگیا۔
ٹیکسی ڈرائیور سے جب تعارف ہوا تو پتا چلا کہ وہ بھی جہنی قبیلے سے ہے۔ بدر کا مقام مدینہ سے ایک سو ستر کلومیٹر ہے۔ ٹیکسی ڈرائیور اور وہ تینوں لڑکے جمعہ پڑھنے لگے، اتنے میں مَیں نے بدر کا میدان، جہاں جنگ ہوئی تھی اور مولا علیؑ کی تلوار نے اُمویوں کے جگر کاٹے تھے، تسلی سے دیکھی۔ یہ جگہ اوپر نیچے غیر ہموار سا میدان ہے جس میں ریت اور پتھروں کے ٹکڑے بھرے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی کھجوروں کا باغ ہے۔ میدانِ جنگ کے ایک طرف ریت کے پہاڑ ہیں اور دوسری طرف سخت چٹانیں ہیں۔ ایک کنواں نما جگہ بھی موجود ہے جہاں کفار کی لاشیں دفن کی گئی تھیں۔
دوسری طرف بدر کے چودہ شہیدوں کی الگ سے قبریں ہیں۔ یہ وہی جگہ ہے جو شام سے مکہ جانے والوں کا راستہ تھا، اب بھی اُن کا وہی راستہ ہے۔ ابو سفیان شام سے تجارتی قافلہ مکہ کے طرف واپس لے کر جا رہا تھا جسے مسلمانوں نے روکنا تھا لیکن ابوسفیان اِس راستے سے بَل کھا کے نکل گیا مگر جو لشکر ابوجہل مکہ سے لایا تھا، اُس کا رسولِ خدا کے لشکر سے ٹاکرا ہوگیا اور جس جگہ ٹاکرا ہوا وہ یہی مقام تھا۔
مَیں نے اپنی آنکھوں کو دل سے ملایا اور تصور کیا، کیسے حمزہ رض، علیؑ اور عبیدہ رض نے پہلے ہی ہلے میں ہندہ کے رشتہ داروں کی بدمعاشی نکالی تھی۔ عین اُسی جگہ کھڑے ہوکر مَیں نے تصویریں بھی بنائیں اور مولا پر درودو سلام بھی پڑھا۔ پھر چاروں طرف سے چل پھر کر بدر کا مشاہدہ کیا۔ اتنے میں اُنھوں نے اپنا جمعہ مکمل کر لیا اور مَیں نے زیارت مکمل کر لی اور ہم ینبع چل نکلے۔
رضوان راجہ صاحب کو مَیں نے بتا دیا کہ مَیں پہنچنے والا ہوں۔ اُس نے مجھے ایڈریس بھیج دیا۔ جیسے ہی ہم یبنع کے رستے پر چڑھے دائیں بائیں ایک لا محدود صحر ا تھا، سُرخ و سفید اونٹ تھے۔ اور گھاس پھیلی ہوئی تھی۔ پھر ایک پولیس کا ناکہ آیا، اُس کے ساتھ ڈرائیور نے عربی زبان میں اپنی رمز بتائی اور ہم آگے نکل گئے۔ بعد میں ڈرائیور نے مجھے بتایا کہ غیر ملکیوں کو اِس علاقے میں نہیں آنے دیتے۔ چونکہ مَیں ینبع ہی کا ہوں اِس لیے اُس نے زیادہ تفتیش نہیں کی۔ اصل میں یہ سارا علاقہ آرامکو فیکڑی کی ایک شاخ کا تھا اور بہت حساس تھا۔
آخر عبدالعزیز جہنی نے مجھے رضوان صاحب کے گھر پر اُتار دیا۔ اور رضوان راجہ صاحب نے پُر تپاکی سے استقبال کیا۔ نہایت گرم جوش اور نستعلیق لڑکا ہے۔ اپنے گھر لے جا کر پہلے کھانا کھلایا۔ پھر فوراً پروگرام بنا کہ زیارات کرنا ہیں۔ تب پتا چلا کہ اصل میں زیارات مزید پچاس کلومیٹر آگے ہیں۔ اور اُس جگہ کا نام ینبع النخل ہے۔ اور جہاں ہم بیٹھے ہیں یہ البحر ہے۔ اُس نے بتایا کہ ینبع تین ہیں، الصنایا، البحر اور النخل۔ جہاں مولا علیؑ اور اُن کی اولاد رہی ہے وہ النخل ہے۔ تب اُس نے اپنے گاڑی نکالی اور ہم النخل کی طرف چل دیے۔ ایک گھنٹے بعد پہنچ گئے۔
اب جو دیکھتا ہوں تو ایسا خوبصورت علاقہ، بھئی واللہ، پہلے نگاہ میں نہیں آیا۔ یہاں سب سے پہلے ایک پہاڑی آئی جہاں پر رسولِ خدا کی زیارت گاہ تھی۔ رضوان نے بتایا، یہاں رسولِ خدا اپنے ناقہ سمیت اِس پر کھڑے رہے ہیں اور مولا علیؑ بھی ساتھ تھے۔ مَیں وہاں درود پڑھتا ہوا کچھ دیر بیٹھ گیا۔ یہ بہت خوبصورت پہاڑی ٹیلہ ہے اور اب ینبع کا نشان بھی ہے۔ کچھ دیر بعد ہم آگے گئے۔ یہاں دیکھا تو چودہ سو سال پرانی بستی کے آثار ابھی تک تھے۔ سب سے پہلے ہم امام حسینؑؑ کےملکیتی چشمے پر پہنچے۔ یہاں مَیں نے جی بھر کر پانی پیا۔ یہاں کچھ عرب زیارات کو آئے ہوئے تھے مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ وہاں چونکہ زیارت کو صرف عرب شیعہ ہی جاتے ہیں، لہذا اُنھیں خود بخود پتا چل جاتا ہے کہ یہ بھی ہمارا مولائی بھائی ہے۔
اُن میں ایک لڑکا بہت خوش ہوا، مجھے کھانے کی دعوت دی لیکن ہم نے شکریہ ادا کیا اور تھوڑی دیر وہاں جذب وسکون کی منزلیں طے کیں اور اُس کے بعد مولا امام حسنؑ کے ملکیتی چشمے پر پہنچے۔ یہ چشمہ بھی ابھی تک جاری ہے اور ارد گرد سر سبزی تھی۔ یہ ذرا کنویں کی طرح گہرا تھا۔ مَیں نے یہاں سے بھی پانی پیا اور آس پاس کے منظروں کو جی بھر کر سینے میں سمیٹ لیا۔ تب ہم مولا علیؑ کے نام سے منسوب چشمے پر پہنچے۔ یہاں چاروں طرف کھجوروں کے باغ اور سر سبز کھیت تھے۔
دراصل یہی جگہ تھی جہاں سے مولا علی نے بستی بسانے کا آغاز کیا تھا۔ یہاں ایک ٹیلے پر بہت بڑی آبادی کے کھنڈر موجود ہیں۔ کچھ نئے گھر بھی ہیں مگر وہ بھی پرانی طرز کے ہیں۔ اِس جگہ مَیں کافی دیر گھومتا رہا پوری بستی کا چکر لگایا اور رضوان بھائی میری تصویریں بناتا رہا۔ وہاں سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ کیا دن ہوں گے جب مدینہ میں حکومت کرنے والے حکومت کر رہے ہوں گے اور مولا علیؑ دلوں پر حکومت کرنے کی یہاں کاشت کر رہے ہوں گے۔
مجھے گمان تھا کہ یہاں جگہ جگہ مولا علیؑ کے قدم تھے۔ کیونکہ اُنھوں نے اپنی زندگی کے پچیس سال اِس علاقے میں گزارے اور یہیں سے تبلغ کے لیے ہندوستان، ہرات، کشمیر، اور سندھ، ایران، اور ترکی تشریف لے جاتے رہے تھے۔ جس کی نشانیاں اِن ملکوں میں موجود ہیں۔ جنوبی ہند میں جو اسلام کی پہلی شیعہ شاخ نمودار ہوئی تھی وہ مولا علی کا صدقہ ہی تھا۔ مولا علی علیہ االسلام کے تمام بیٹے اِسی جگہ ینبع النخل میں رہے۔ یہیں سے اُن کی معاشی ضروریات پوری ہوتی تھیں۔
جب حضرت علی کی خلافت کا دور آیا تو آپ نے موصل کے ایک قبیلے جہنیہ کو بھی لا کر یہاں آباد کیا۔ یہ سارا قبیلہ شیعہ تھا، بلکہ النخل کے سارے لوگ شیعہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب امام حسینؑؑ کربلا کے لیے مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے تو اپنے ایک بھائی کو ینبع بھیجا اور اُسے کہا، وہاں سے اونٹ بھیڑ، بکریاں اور غلہ لے کر مکہ پہنچو اور جہنی قبیلے سے ہمارے لیے نصرت بھی طلب کرنا۔ اگر کوئی ہماری نصرت کرنا چاہے تو اُسے بھی لے کر مکہ پہنچ جانا۔ چنانچہ چار جہنی ینبع سے امام کے پاس مکہ پہنچے جن میں سے تین کربلا میں شہید ہو گئے تھے اور ایک زخمی ہوگیا۔
ینبع میں اہلِ بیتِ رسول کا ایک قبرستان بھی ہے۔ حسن مثنی ٰ کی قبر بھی یہیں ہے۔ اور باقی اکثر اولادِ علیؑ اور اُن کے رشتہ داروں کی قبریں یہاں ہیں۔ اب یہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ بڑے شہروں کی طرف نکل گئے ہیں۔ لیکن حکومت کو اب یہاں کی جگھیں محفوظ کرنے کا خیال آیا ہے۔ یہی جگہ ہے جو تاثر پیش کرتی ہے کہ یہاں اہلِ بیتِ رسول رہے ہیں۔
مَیں قبرستان میں بھی گیا۔ رضوان بھائی نے تمام رہنمائی کی۔ حسن مثنی ٰ کی قبر پر بھی برکت کے لیے دعا کی۔ یہاں کوئی پاکستانی، ایرانی یا دوسرے ملکوں کا زائر نہیں آتا۔ صرف عرب شیعہ زائر آتے ہیں۔ مجھے خدا نے خاص یہاں تک پہنچایا اور رضوان کو وسیلہ بنایا۔ ہمیں یہاں پر رات ہوگئی۔ آخر البحر کی طرف روانہ ہوئے۔ میری وہاں ایک اور دوست نے دعوت کر رکھی تھی۔ یہ دوست کون تھے اور مجھے کہاں تک لے گئے، کل جب سب واردات لکھوں گا تو آپ حیران رہ جائیں گے۔
بہر حال خدا نے مجھے ایسی جگہ دکھا دی، جو دیکھنے کی خواہش تھی اور میرے ناول کا ایک باب اِسی پر تھا، جو مَیں لکھ بھی چکا تھا، اب کچھ چیزیں لینڈ سکیپ کے حوالے سے مزید شامل کروں گا۔ بھئی اِسی لیے تو آیا ہوں۔ مَیں پھر راجہ ناصر عباس کی محبت کو سلام کرتا ہوں کہ اُنھوں نے مجھے میرے مقاصد کی تکمیل میں حوصلہ ہی نہیں دیا اُسے عملی تعاون بھی پہنچایا۔