Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Akhtar Bukhari
  4. Myanmar Ki Jamhuriat Ke Fateh

Myanmar Ki Jamhuriat Ke Fateh

میانمار کی جمہوریت کے فاتح

نصف صدی تک اقتدار پر براجما ن رہنے والی میانمار کی فوج پر اقتدار سے دوری کے دس سال کتنے کٹھن گذرے ہونگے اس کا اندازہ جمہوریت کی علامت آنگ سان سوچی اور آمریت کے نقیب جنرل من آنگ ہلاینگ کی اخبارات میں چھپنے والی تصویروں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ جنرل آنگ کا مؤدبانہ انداز اور آنگ سان سوچی کے چہرے کی طمانیت بتا رہی تھی کہ دونوں ایک صفحے پر ہیں ۔ کہیں دور دور تک ایسی کوئی علامت دکھائی نہیں دے رہی تھی جس سے یہ سمجھا جاتا کہ کل نہ جانے ہم کہاں ہوں اور تم کہاں؟ بہت دور کی بات نہیں 1977 کے اوائل میں جنرل ضیا الحق اور ذولفقار علی بھٹو کے درمیاں بھی ایسی ہی گاڑہی چھنتی تھی جیسا جنرل من آنگ اور آنگ سان سوچی کی تصاویر میں دکھائی دے رہا ہے۔ جنرل ضیا الحق ذولفقار علی بھٹو کے ارد گرد ایسے مؤدبانہ انداز میں متحرک دکھائی دیتے تھے جیسے ذولفقار علی بھٹو بظور وزیر خارجہ جنرل ایوب خان کے روبرو انتہائی آداب کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیاکرتے تھے۔ جنرل ضیا الحق اور ذولفقار علی بھٹو ایک ہی صفحہ پر اتنے قریب دکھائی دیتے تھے پتہ ہی نہیں چلنے دیتے تھے کہ جنرل ضیا الحق کی جیب میں جلتا سگار ذولفقار علی بھٹو کا ہوتا تھا یا جنرل ضیا الحق کا!

دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کا سفر جب دکھتی آنکھوں اور بہرے کانوں تک پہنچا تو ایک صفحے کی گردان بدستور جاری تھی۔ میاں محمد نواز شریف اور جنرل وحید کاکڑ بھی بظاہر ایک صفحے پر تھے جسے غلام اسحق خان پھاڑ کر پھینک ڈالا۔ جنرل آصف نواز اور میاں محمدنواز شریف بھی ایک ہی صفحے پر پیچ لڑاتے رہے۔ جنرل جہانگیر کرامت ا ور میاں محمد نواز شریف کا مفاہمتی صفحہ بھی تاریخ میں امر ہوچکا ہے۔ 1999 میں جنرل مشرف اور میاں محمد نواز شریف بھی دو بھائیوں کی طرح ایک صفحے پر تھے جس پر دستخط کے لئے بارہا مرحوم میاں محمد شریف کو قلم اٹھانا پڑتا تھا کبھی پستولوں کے تحفے دیئے جاتے تھے جنرل راحیل شریف اور میاں نواز شریف بھی بظاہر ایک ہی صفحے کے مندرجات تھے لیکن انجام کار صفحے الٹ پلٹ دئیے گئے اور تاریخ نئے صفحات کی تلاش پر چل نکلی۔ ابھی میانمار کے جنرل من آنگ ہلاینگ اور آنگ سان سوچی کی ایک ہی صفحے پر مثالی ربط باہمی کی تصویر سے جی نہیں بھراتھا کہ پاکستان کی ایک دبنگ سیاسی لیڈر کا بیان سماعتوں پر ہتھوڑے برسانے لگا۔ محترمہ نے فرمایا اور ملک کے تمام بڑے روزناموں نے شائع کیا کہ "عمران خان کو ٹی وی کے ذریعے اپنی حکومت ختم ہونے کا پتہ چلے گا"۔

محترمہ کی خبر میں چھپی دھمکی یا پیشین گوئی با لکل نئی نہیں ۔ ذولفقار علی بھٹو وزیر اعظم ہاؤس میں آرام فرمارہے تھے جب ڈھول سپاہی ان کی خواب گاہ میں جا دھمکے اور انہیں بتایا کہ آپ سوتے رہ گئے آپ کا اسٹیشن تو نکل گیا۔ محمد خان جونیجو امریکہ سے واپسی پر ایئرپورٹ سے باہر نکلے تو وزیر اعظم تھے لیکن وزیر اعظم ہاؤس پہنچنے سے پہلے ہی سرخ قالین ان کے پیروں تلے سے سرکایا جا چکا تھا۔ میاں نواز شریف نے ٹی وی چینل پر دبنگ تقریر کی اور قدرے اطمینان کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس میں کے اسٹاف کو کھانے کا حکم دیا لیکن لقمہ دہن تک جانے سے پہلے ہی اقتدار کی ہڈی گلے میں پھنس چکی تھی۔ غلام اسحق خان کے جنرل من آنگ ہلاینگ کی آشیرواد سے میاں نواز شریف کی حکومت ختم کردی گئی۔ اپنی قیادت کے ساتھ 1999 میں پیش آنے والے واقعات کے تناظر میں محترمہ درست فرما رہی ہیں 12اکتوبر کی سہ پہر جب میاں محمد نواز شریف اپنے مصاحبین خاص کے ہمراہ وزیر اعظم کے خصوصی طیارے میں سوار ہو کر شجاع آبادسے راولپنڈی کے لئے روانہ ہو ئے مکمل پروٹوکول کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس پہنچے اپنے ذاتی عملے کو متحرک کیا ملٹری سیکریٹری کو ہدایات دیں اس وقت کے آئی ایس آئی چیف کو انعامات و اکرامات سے نوازنے کے لئے طلبی کا حکم دیا۔

ملک کے سدا بہار جید صحافی کو اہم ہدایات تحریر کروائیں پاکستانی سیاست کے نواب زادہ نصراللہ 2 کے ساتھ کچھ رازدارانہ گفتگو کی لیکن انہیں انقلاب بپا کرنے کی جلدی میں اپنی ہی صاحبزادی کے وہ سنہرے الفاظ یاد نہ رہے جو قوم پر گذشتہ سال وا ہوئے جب انہوں نے وزیر اعظم صاحب کی ایک صفحے کی گردان پر باؤنسر مارتے ہوئے کہا "کہ کوئی جاکر نیازی کو بتا دے کہ صفحہ پلٹتے دیر نہیں لگی"۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم ہاؤس کے اندر صفحہ پلٹنے کی تیاریوں میں مصروف تھے جبکہ ان کی حکمرانی کا صفحہ جنرل مشرف سری لنکا جانے سے پہلے ہی پلٹ چکے تھے۔ ادھر جنرل مشرف سری لنکا سے پاکستان روانگی کے لئے روانہ ہوئے تو ادھر جنرل مشرف کی مستقل روانگی کے اہتمام عروج پر پہنچنا شروع ہوگئے لیکن تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود اپنے مصاحب خاص کو اپنے منصوبے سے لا علم رکھنے کے باوجود آئی ایس آئی کے سربراہ کو مسلح افواج کا سربراہ بنانے کے اعلان کے باوجود میاں نواز شریف پاکستان کے جنرل من آنگ ہلاینگ کے منصوبوں سے نہ بچا پائے۔

جنرل من آنگ ہلاینگ اور آنگ سون سوچی کی تصویر میں دو اہم شخصیات کے چہروں کے اتار چڑھاؤ کا جائزہ جاری تھا کہ ملک کے ٹی وی چینل پر وزیر اعظم، چیف آف آرمی اسٹاف اور آئی ایس آئی کے سربرا ہ کی مشترکہ ملاقات کی فلم چلنا شروع ہوگئی، چیف آف آرمی اسٹاف کی مسکراہٹ میں جنرل من آنگ ہلاینگ کی جھلک اور وزیر اعظم کی مسکراہٹ میں آنگ سان سوچی کے چہرے کے اتار چڑھاؤ نے قوم کو ایک مرتبہ پھر یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ساتھ ہی مریم اورنگزیب کی مردانہ وجاہت سے بھرپور زنانہ پیشین گوئی بھی کانوں میں گونجنے لگی کہ عمران خان کو ٹی وی کے ذریعے اپنی حکومت کے ختم ہونے کا پتہ چلے گا۔ میانمار کے جنرل کی پیش قدمی کی وجہ میانمار کے انتخابات میں دھوکا دہی بتائی جا رہی ہے جبکہ جمہوری حکمران آنگ سان سوچی نے جمہوری روایات کو ملیا میٹ کرتے ہوئے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے بے دریغ قتل عام اور نسل کشی میں میانمار کی فوجی جنتا کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔

یہ وہی جنرل من آنگ ہیں جن کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ باقی تھے جو گذشتہ سال نومبر میں میانمار کے عام انتخابات تک آنگ سون سوچی کے ساتھ کھڑے تھے لیکن اپنی ریٹائرمنٹ کے بھیانک تصور نے انہیں بھی اس راہ پر چلا دیا جو دنیا کے ہر فوجی حکمران کی اقتدار تک پہنچنے کی آسان ترین پگڈنڈی ہوتی ہے۔ کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال اور کردار کشی۔ اور میانمار کی فضاوں میں بھی ایوب خان، ضیا الحق اور مشرف کے وہ تاریخی جملے گونج اٹھے کہ میرے عزیز ہم وطنو! اور اس کے بعد جمہوریت کے چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

Check Also

Lawrence Of Arabia

By Rauf Klasra