Is Botal Se Bhi Shehad Hi Baramad Hoga
اس بوتل سے بھی شہد ہی برآمد ہوگا
ستمبر 2018 کی بات ہے ملک خداد پاکستان کے طاقتور ترین چیف جسٹس نے اپنے ساتھیوں اور حکومت کے اعلی ترین عہدے داروں کے ساتھ ملک کے بڑے ہسپتال کا دورہ کیا جس کے ایک کمرے کو ایک نامور سیاست دان کے لئے سب جیل بنایا گیا تھا۔ اس سیاسی رہنما کے کمرے میں قانون وانصاف کی اعلی اقدار کے علمبردار جناب چیف جسٹس کی نظر چندغیر مانوس بوتلوں پر پڑی جو کسی طرح بھی ہسپتال کی فراہم کردہ دواؤں سے متعلق نہیں تھیں۔ چیف جسٹس صاحب نے بوتلیں اٹھائیں ڈھکن کھولے اور بوتلوں سے اٹھنے والی معطر مہک سے متاثر ہوکر وہیں پر حکم جاری کیا کہ بوتلوں میں موجود مائع کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا جائے۔ ملک کے منصف اعلی چاہتے تو وہیں اپنی نظروں کے سامنے ان بوتلوں میں موجود مائع کا ٹیسٹ کرو اسکتے تھے۔ اپنے ساتھی ججوں کو بھی اس مائع کی معطر مہک کی بابت اپنی رائے قائم کرنے کا کہہ سکتے تھے۔ اپنے ساتھ موجود انتظامی افسران کو بھی اپنی تشویش میں شامل کر کے وہیں ہسپتال کے کمرے میں ہی مشکوک بوتلوں میں موجودسیال مادے کی حقیقت بے نقاب کردیتے تو معاملہ وہیں منطقی انجام کو پہنچ سکتا تھا۔
دوا، شہد یا عطر قوم کے سامنے ہوتا اور معزز منصف اعلی کا فیصلہ اس کمرے میں موجود سیاسی قیدی کے ہاتھ میں ہوتا۔ ملک کے سب سے بڑے منصف کے حکم پر ملک کے ایک بڑے ہسپتال میں موجود نیب کے زیر حراست سیاسی رہنما کے کمرے سے برآمد ہونے والی بوتلوں کو متعلقہ افسران کے حوالے کر کے لیبارٹری بھیجنے کا حکم دیا گیا۔ صوبائی حکومت کی چھایہ چھتری میں کام کرنے والے بوتلیں لے جانے والے، لیبارٹری کے حکام اور رپورٹ تیار کرنے والوں نے بہت عرق ریزی کی اور کچھ دنوں بعد دونوں بوتلوں میں موجود سیال مادے کے بارے میں مکمل جامع رپورٹ جاری کردی کہ دونوں کو ٹیسٹ کے لئے لیبارٹری بھجوایا گیا تھا لیکن بوتلوں میں متبرک شہد اور دم کیا ہوازیتون کا تیل تھا۔
منصف اعلی اگر روز اول اپنے سامنے دونوں بوتلوں کو چیک کرواتے تو کہانی کچھ اور ہوتی اور ان کی ساکھ پر سوالیہ نشان زبان زد عام نہ ہوتے۔ یوں کہانی ختم ہوگئی۔ کچھ ایسی ہی صورتحال گذشتہ دنوں کراچی میں دوبارہ پیش آئی۔ پاکستان کے تین مرتبہ منتخب وزیر اعظم کے داماد گرفتار ہوئے تھانے گئے اور پھر رہا بھی ہوگئے لیکن چند گھنٹوں کی اسیری اور رہائی نے سابق منصف اعلی کی بھولی بسری یاد پھر سے تازہ کردی۔ ایک سابق جنرل کے صاحبزادے کے بقول انہیں وزیر اعلی سندھ نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم کے داماد کی گرفتاری کے لئے سندھ پولیس کے سب سے بڑے افسر جن کا عہدہ مسلح افواج کے لیفٹیننٹ جنرل کے برابر ہوتا ہے کو مبینہ طور پر اغوا کیا گیا اور دباؤ میں لاکر سابق وزیر اعظم کے داماد کو گرفتار کروایا گیا۔ کہانی پھر چل نکلی کہ بوتلوں میں کیا تھا شہد زیتون کا تیل یا کچھ اور؟
قانونی ماہرین کے مطابق سابق وزیر اعظم کے داماد کا جرم قابل ضمانت بھی تھا اور گرفتاری ضروری نہیں تھی تو پھر صوبے کے انسپکٹر جنرل پولیس کے مبینہ اغوا کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا سابق وزیر اعظم کے داماد جو خود بھی سابق فوجی افسر ہیں اتنی اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کی گرفتاری کے لئے اتنا زیادہ اہتمام کیا گیا۔ مان لیتے ہیں کہ صوبے کے پولیس چیف کو اغوا کیا گیا تو کیا ایک ڈویژن سے زائد کی پولیس کے سربراہ کے گھر یا دفتر پر پولیس کی ایک کمپنی تک دستیاب نہیں تھی جو ان کے مبینہ اغوا کنندگان سے انہیں بچا سکتی۔ کیا صوبے کے سب سے بڑے پولیس افسر کی رہائش گا یا دفتر کی نگرانی کے لئے ایک بھی کیمرہ نصب نہیں تھا جو مبینہ اغوا کاروں کو آتے اور جاتے دیکھ سکتا۔ کیا صوبے کے سب سے بڑے پولیس افسر نے اپنے مبینہ اغوا کی رپورٹ اپنے ہی کسی پولیس اسٹیشن میں درج کروائی۔ شراب شہد اور زیتون کے تیل میں الجھے اہلیان سندھ حیران ہیں کہ شاندار کارکردگی رکھنے والے سندھ کے پولیس چیف نے مبینہ اغوا سے رہائی کے فوری بعد پریس کانفرنس کر کے مبینہ اغوا کے کرداروں کو قوم کے سامنے بے نقاب کیوں نہ کیا۔
اگر سندھ پولیس کے سربراہ اپنی مبینہ رہائی کے فوری بعد ایک پریس کانفرنس کرکے اغوا کاروں کے نام، تعداد اور طریقہ واردات بتا دیتے تو نا ہی وزیر اعلی سندھ کو دھواں دار پریس کانفرنس کرنا پڑتی اور نا ہی بلال بھٹو زرداری کو شرم سے منہ چھپانے کا بیان دینا پڑتا۔ نا ہی سندھ حکومت کو تحقیقاتی کمیٹی کے لئے تاک تاک کر بندے ڈھونڈنے پڑتے اور نا ہی مسلح افواج کے سربراہ کو کراچی کور کمانڈر کو واقعے کا جائزہ لینے کا حکم دینا پڑتا۔ اندرون سندھ کے چھوٹے سے شہر کنری جہاں دنیا کی سب سے بڑی مرچ منڈی ہیکے رہائشی خالصتا دیہاتی شخصیت ملک ستار کا فون آیا بہت سادگیاور اپنے تئیں محتاظ مشورہ دیا کہ سندھ کے محبوب انسپکٹر جنرل بھی ایک پریس کانفرنس کردیں اور بلا خوف خطر ساری قوم کو بتا دیں کہ 18 اور 19 اکتوبر کی رات ان کے ساتھ کیا بیتی؟
اگر مبینہ اغوا کے الزامات درست ہیں تو بلا خطر ان افراد کے نام اور عہدے قوم کو بتادیں جو ادارہ بھی اس مبینہ اغوا کا ذمہ دار تھا اس کا نام لینے سے نا ہچکچائیں اور اس پریس کانفرنس کے فوری بعد قریب ترین پولیس اسٹیشن جائیں اور ملکی تاریخ کی دبنگ ایف آئی آر کٹواکر 72 سالہ پاکستان کی آنکھ مچولی کھیلتی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کردے۔ ملک ستار صاحب کا یہ بھی مشورہ تھا کہ انسپکٹر جنرل صاحب کی اس کوشش سے مقتدر اداروں، وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی صفوں میں بیٹھے وہ تمام کردار بے نقاب ہوجائیں گے جو ہر حکومت اور ادارے کے لئے مشکلات کا باعث بنتے ہیں جس کا فائدہ بلا مبالغہ کسی تیسری قوت نے اٹھایا اور شاہراہ جمہوریت پر بڑھتے قدم جی ٹی روڈ جیسے ناہموار راستے کی طرف دھکیلے جاتے رہے ہیں۔