Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ajwa Rasheed
  4. Laal Kamra

Laal Kamra

لال کمرا

آپ سب نے سلطان محمد فاتح عرف ڈریکولا کا نام سنا ہوگا جو انسان کی شکل میں ایک بھیڑیا تھا، جو لوگوں کو بے دردی سے قتل کر کے ان کی لاشوں کو سلاخوں پر لٹکا دیتا اور ان کے خون سے روٹی کھانا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے وہ تو دور جہالت تھا اب ایسا کہاں ہوتا ہے موجودہ دور میں اس دور سے زیادہ بھیانک جرائم ہوتے ہیں۔ ریڈ رومز کسی بھی طرح کا اینیمیشن یا ویڈیو نہیں ہے جس کے بعد لوگ خود کشی کر لیتے ہیں یہ ایک ایسی ویب سائٹ ہے جو ڈارک ویب پر ملتی ہے۔

ہمارا انٹرنیٹ تین سطح پر بٹا ہوا ہے سرفیس ویب، ڈیپ ویب، اور ڈارک ویب سرفیس ویب وہ انٹرنیٹ ہوتا ہے جو بہت کم ہے ایک فیصد سے بھی کم وہ گوگل پر مل جاتا ہے جس کی رسائی ہم تک ہے یعنی فیس بک ٹوئٹر، انسٹاگرام اور بہت سارے وہ ویب سائٹ جو گوگل پر مل جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کا بہت بڑا حصہ چھپا ہوتا ہے جس کو ہم سرچ انجن پر نہیں ڈھونڈ سکتے ان ویب سائٹس پر ساری غیر قانونی چیزیں ہوتی ہیں جس میں غلط دھندے ہوتے ہیں جب کے ڈیپ ویب پر وہ انٹرنیٹ کا حصہ ہے جس میں غیر قانونی کام نہیں ہوتے لیکن وہ گوگل پر سرچ کرنے سے نہیں ملتا۔ اس ویب کا استعمال زیادہ تر ملک کی ایجنسیز کرتی ہیں۔

ڈارک ویب انٹرنیٹ کا 96 فیصدحصہ ہوتا ہے وہ چھپا ہوا انٹرنیٹ ہوتا ہے جس کی رسائی مخصوص براؤزر سے ہوتی ہے۔ ڈارک ویب میں بہت سارے غیر قانونی کام ہوتے ہیں جن میں ڈرگ ڈیلنگ، قتل اور جنسی استحصال شامل ہے ہر قسم کے جرائم ہوتے ہیں اس ویب سائٹ کی رسائی بھی غیر قانونی ہوتی ہے۔

ریڈ روم (لال کمرا) لال رنگ کا نہیں ہوتا بلکہ انٹرنیٹ کی دنیا میں ایک کمرہ ہوتا ہے جس کا نام ریڈ روم شاید خون سے تشبیہ دینے کے لئے رکھا ہے ذہنی بیمار لوگ یا دہشت گرد گناہ کر کے پیسہ کماتے ہیں کیسے کسی بچے کو اغوا کر کے اس کو ٹارچر کرتے ہیں اور ان کی بولی لگتی ہے جو کسٹمر جتنا پیسہ دیتا ہے اس کے کہنے پر اس لحاظ کا ٹارچر کیا جاتا ہے۔

2010 میں تین ویڈیوز پر مشتمل ایک سیریز منظرعام پر آئی تھی جس کا نام دیزی ڈسٹرکشن تھا اس ویڈیو میں چھوٹی بچی کے ساتھ زیادتی کہ بعد اسکو مارا جارہا تھا اور اسکے عضاء کاٹے جارہے تھے۔ مغربی اور غیراسلامی ممالک کے بعد اب یہ ڈارک ویب کا چرچہ پاکستان میں بھی ہو رہا ہے۔

کچھ مشہور صحافی نے یہ دعوی کیا تھا کہ 2018 میں قصور میں ہونے والے زینب کے واقعے میں بھی ڈارک ویب ملوث ہے تاہم مجرم کا ڈارک ویب سے منسلک ہونے کا کسی قسم کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا۔

تاہم حکومت کو ایسے ٹھوس اقدام اٹھانے چاہیے جس سے ڈارک ویب کے صارفین کا پتہ لگایا جا سکے اور مزید جرائم سے بچا جا سکے۔

Check Also

Thanda Mard

By Tahira Kazmi