Kya Waqai, Kashmir Banega Pakistan
کیا واقعی، کشمیر بنے گا پاکستان
آزادی اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ نعمتوں میں سے ایک بہت عظیم نعمت ہے۔ جو لوگ بھی آزادی کو محظ الفاظ کی حد محدود رکھتے ہیں شاید وہ یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ آزادی محظ الفاظ کی حد تک محیط نہیں ہے بلکہ بہت سی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے بعد لفظ آزادی کی خوشبو نصیب ہوتی ہے۔
چونکہ 14 اگست ہماری آزادی کا دن ہے اور اس دن پاکستان کے کونے کونے میں جشن آزادی کافی زور وشور سے منائی جاتی ہے اور ہمارے ہاں بھی بہت ولولہ انگیز طریقہ سے آزادی کا استقبال کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی بہت سے قومی دنوں کے موقع پر مختلف تقریبات کا انعقاد کیا گیا لیکن سب سے الگ تھلگ جو عقیدت رکھی گئی وہ مسئلہ کشمیر ہے لیکن اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہماری زبانوں پر ایک نعرہ ضرور تھا "کشمیر بنے گا پاکستان"۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ واقعی کشمیر بنے گا پاکستان! چونکہ آزادی کا مطلب ہوتا ہے کہ جو ریاست حاصل کی جائے وہ محظ جیوگرافی لحاظ سے ہی الگ تھلگ نہ ہو بلکہ مذہبی، تہذیبی اور ثقافت کے لحاظ سے بھی اہمیت رکھتی ہو۔ ایک ایسی ریاست کا قیام ہو جہاں اپنے لاگو کئے گئے قوانین کی پابندی کی جائے مثال کے طور پر اسلامی ریاستوں میں پاکستان اسلامی نفاذ پر بنائی گئی فلاحی ریاست ہے تو یہاں آزادی کو ہی مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ دین کو اہمیت حاصل ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں ہر معاملات میں دین اسلام کی روشنی میں عمل درآمد کیا جائے گا۔
حال ہی میں کشمیر کے کچھ علاقوں پر کلسٹر دھماکے کیے گئے جس کا مقصد یہ تھا کہ جموں کشمیر کے معاملات میں دخل اندازی نہ کی جائے، چونکہ جیوگرافیائی لحاظ سے یہ پاکستان کا وہ حصہ ہے جسکو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور کشمیری نوجوان خود بھی بھارت کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہیں اسی لیے اپنی بقاء کے لیئے 73برس سے جنگ کے میدان میں سینہ تان کھڑے ہیں۔ کشمیر میں نظربندی کے بعد پاکستان میں تقریباً ہر شہر گلی محلہ میں حریت آزادی کے لیے ریلیاں نکالی گئیں جو اس بات کی گواہی تھی کہ ہم کشمیر کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اور ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ان ریلیوں میں جو نعرہ سننے کو ملتا ہے وہ ہے کشمیر کا مطلب کے لاالہ الااللہ تو جب یہ نعرہ بلند ہو جائے تو پھر یہ محظ کشمیر کی بقاء کا سوال نہیں ہے بلکہ پوری امتِ مسلمہ کی ذمّہ داری بن جاتی ہے کہ اس کلمہ کی بقاء کی خاطر اپنے سروں کو تن سے جدا کرنے کو تیار ہو جائیں۔
سب سے زیادہ جو اس مسئلہ میں درپیش ہے وہ پاکستان ہے یعنی نظریہ کی بنیاد پر بھی اور جیوگرافی کے لحاظ سے بھی اور ہمارے حکمران اس سنگین مسئلہ کا حل محظ مذاکرات میں ہی تلاش کر رہے ہیں جو کہ مسئلہ کا حل نہیں ہے اور کہا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے تحریکوں کا انعقاد کیا جائے یہاں اختلاف رائے یہ ہے کہ ریلیاں تب نکالی جاتی ہیں جب ملک میں اندرونی بد نظمی پھیل گئے ہو اور بغاوت بھی تب ہی کی جاتی ہے جب ریاست کی حکمرانی میں بگاڑ آجائے لیکن جب بات آ جائے اپنے مسلمان بھائی کی آزادی کی اسکی زندگی کی تو پھر ریلیاں نہیں نکالی جاتی پھر جنگ وجدل کا سما ہوتا ہے اور رہی بات معاہدوں کی تو ایک غیر مسلم سے ہمارا تعلق ہی کیا ہے اگر معاہدات کی بنیاد پر مساہل کا حل ہوتا ہو 17 غزوات پیش نہ آتے اور ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ سے زیادہ رحیم اور انسانیت کا خیال رکھنے والا اور کوئی نہیں تھا جن کو قرآن نے رحمت اللعالمین ہونے کی بشارت دی گئی لیکن جب بات مسلمان بھائی کی آئی تو آپ ﷺ جنگ کے لئے تیار ہو گئے تو یہاں سے سبق حاصل کر لینا چاہیے کہ بجائے تحریکوں اور مذاکرات کے ہمیں اپنے آباء و اجداد کا کام شروع کرنا چاہیے اور میدان میں اتر کر یہ بات ثابت کر کینی چاہیے کہ واقعی کشمیر بنے گا پاکستان۔