Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Agha Shoaib Abbas/
  4. Sehra e Thar Ke Karoonjhar Pahar

Sehra e Thar Ke Karoonjhar Pahar

صحرائے تھر کے کارونجھر پہاڑ

برادر اسلامی ملک سعودی عرب تیل کی دریافت سے قبل ایک ترقی پذیر ملک ہوا کرتا تھا لیکن اب قدرتی وسائل خصوصاً تیل سے مالا مال ملک ہے جو دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک کہلاتا ہے جس کا تیل ایک مخصوص علاقے سے نکلتا ہے یعنی دمام اور قطیف شہر وغیرہ سے جو سعودی عرب کے مشرقی علاقے کہلاتے ہیں لیکن اس علاقے کے قدرتی وسائل سے پورا سعودی عرب مستفید ہورہا ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ پورا عالم اسلام کو فائدہ پہنچ رہا ہے جس کی مثال یہ ہے کہ سعودی عر ب اکثر پاکستان کو ادھار تیل فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے چار صوبوں میں سندھ کو قدرتی وسائل اور معاشی و کاروباری اور قدیمی ثقافت کے لحاظ سے ایک خاص مقام حاصل ہے۔ سندھ کے قدرتی وسائل کا ذکر کریں تو تھر کا کوئلہ دنیا بھر میں 16 واں سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ معیشت و کاروبار کا ذکر کریں تو کراچی سندھ کا معاشی حب کہلاتا ہے اور تہذیب و ثفاقت کی بات کریں تو سندھ کی تہذیب و ثفاقت پانچ ہزار سال پرانی ہے موئن جو دڑو میں کھنڈرات ملے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصر کی تہذیب سے بھی پرانی تہذیب واقع ہوئی ہے جبکہ ابھی صرف ایک چوتھائی کھدائی ہوئی ہے تین چوتھائی کھدائی ابھی باقی ہے۔ تاریخی اور قدیمی صحرائے تھر پاکستان کے جنوب مشرق اور بھارت کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ 22ہزار مربع کلامیٹر ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا کا نویں نمبر پر بڑا صحرا ہے تھر میں کوئلے کی دریافت اور پھر اس سے بجلی کی پیداوار کے آغاز کے بعد تھر میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں وہاں اب وہ مشکلات اور مسائل نہیں ہیں جو پہلے ہوا کرتے تھے وہاں زندگی جدید طرز پر استوار ہونے لگی ہے۔ پہلے کچے مکانات ہوتے تھے اور تھری لوگ بیلوں اور گدھوں کے ذریعے اپنے کنوؤں سے پانی نکالا کرتے تھے اب سولر سسٹم کے آنے کے بعد سولر سسٹم سے پانی کی موٹر چائی جاتی ہیں۔ اب ہر طرف سڑکوں کا جال بچھ گیا ہے۔

جس طرح سعودی عرب کے مخصوص علاقوں سے نکلنے والا تیل پورے سعودی عرب کو فائدہ پہنچا رہا ہے اسی طرح تھر کا کوئلہ پاکستان کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے واضح رہے کہ تھر کے کوئلے کی بجلی سے نیشنل گرڈ کو بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ اسی طرح تھر کے پہاڑ بھی کسی سے کم نہیں۔ کسی بھی ملک کے پہاڑاس کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی جنگلی حیات، جنگل اور نیشنل پررکس کا 56فیصد حصہ پہاڑوں میں واقع ہے۔ اسی طرح دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب افراد پہاڑوں میں آباد ہیں جبکہ دنیا کی نصف آبادی غذا اور پینے کے صاف پانی کے لیے پہاڑوں کی محتاج ہے۔ صحرائے تھر کے کارونجھر کی پہاڑیاں تقریباً 19 کلومیٹر طویل سلسلے کا حصہ ہیں اور ان کی چوٹی کی اونچائی 305میٹر تک ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ نہایت خوبصورت پہاڑی سلسلہ ہے جو ہزار سالہ تہذیب کا حصہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کا سب سے پہلا اثر پہاڑی علاقوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ میں دو پہاڑی سلسلے ہیں ایک سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع کیرتھر کا پہاڑی سلسلہ حسین قدرتی مناظر کا مجموعہ اور نایاب جنگلی حیات کا مسکن ہے۔ دوسرا پہاڑی سلسلہ صحرائے تھر میں واقع کارونجھر کے پہاڑ بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ اسی لیے سندھی شاعروں نے بہت سے اشعار میں کارونجھر کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح سدونت اور شرنگا، ہتھل پری (فطرت کی پری)، اوڈھو جام (سندھی لور) اور بھریوگوری (بھیڑیا کی انگوٹھی) کے افسانوں اور داستانوں میں بھی کارونجھر کا ذکر ملتا ہے۔ کارونجھر کے پہاڑ کہیں سرخ تو کہیں سفید ہیں۔ نگر پاکر میں واقع پہاڑ قدرت کی طرف سے بہت سی نعمتوں سے مالا مال ہیں۔ جس میں گرینائیٹ پتھر، کوئلہ نمک اور چینی کی مٹی سمیت بہت سی معدنیات کے ذخائر شامل ہیں گرینائیٹ پتھر دراصل ماربل کی طرح ایک پتھر ہوتا ہے لیکن گرینائیت، ماربل کے مقابلے میں بہت سخت اور خوبصورت ہوتا ہے اور پائیداری کے حساب سے بھی سال و سال چلتا ہے۔ گرینائیٹ پتھر کی ملکی اور بین اقوامی سطح پر اپنی ایک اہمیت ہے تعمیراتی ماہرین اسے پتھر کی جدید اور خوبصورت شکل قرار دیتے ہیں کیونکہ ان میں سوراخ نہیں ہوتے لہذا پانی یا مائع اشیاء گرنے کے بعد فرش کو نقصان نہیں پہنچتا۔ یہی وجہ ہے کہ سرخ گرینائٹ کے پتھروں کو مافیا کے لوگ کاٹ کاٹ کر بیچ رہے ہیں۔ جس کا علاقے کے لوگوں نوٹس بھی لیا احتجاج بھی کیاکیونکہ پہاڑوں کے پتھروں کو کاٹنے سے پہاڑ ہی غائب ہوجائے گا تو خوبصورتی کہاں بچے گی۔ پہاڑ درخت یا پودا توہوتے نہیں کہ دوبارہ نکل آئیں گے۔ یہ تو قدرت کا انمول تحفہ ہوتے ہیں۔ جس کی حفاظت کرنی چاہیے کیونکہ سونے دینے والی مرغی کو آپ کاٹ دینگے تو پھر وہ سونے کا انڈا نہیں دے گی۔ لہذا منظم اور طریقے سے گرینائیٹ پتھر کو کاٹا جائے تو وہاں کے معاشی حالت بھی بہتر ہونگے اور گرینایٹ کے حوالے سے تھر مشہور بھی ہوگا۔ کارونجھر کے پہاڑ معاشی طور پر اتنے اہم ہیں کہ ایک مقامی کہاوت ہے کہ "کارونجھر باقادگی سے ایک سو کلو سونا برآمد کرتا ہے"۔

اس کے علاوہ نایاب قسم کے ہرن، مور، تلور، تیتر سمیت اعلی قسم کے پرندوں اور جانوروں کی ہزاروں نسلیں پائی جاتی ہیں۔ علاوہ ازیں کارونجھر کے مقامی لوگوں کے مطابق یہاں کے پودے دوائی کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں ان پودوں میں شٹاوری، اوکیرا اور جنگلی پیاز شامل ہے۔ دنیا بھر میں بہترین اور معیاری نمک ایک پولینڈ کا ہوتا ہے دوسرا تھر کا نمک۔ واضح رہے تھر میں بارش کے بعد قدرتی نمک پیدا ہوتا ہے۔

تھرپارکرکے باشندے عام طرزِ زندگی بسر کرتے ہیں ان کا گذر بسر بارانی پانی اور مال مویشی پر منحصر ہے۔ تھر کے باشندوں کی نظریں ہمیشہ آسمان پر لگی رہتی ہیں کہ کب بارش برسے اور صحرا ہریالی میں تبدیل ہوجائے۔ اگر چہ مصنوعی طریقے سے بھی بارش کی گئی ہے لیکن جو قدرتی بارش ہوتی ہے اس کی بات الگ ہوتی ہے۔ بارش کے بعد تھر کو سندھ کا کشمیر کہا جاتا ہے۔ اگر باقاعدگی کے ساتھ یہاں بارشیں ہونے لگیں تو واقعاً سندھ کا یہ علاقہ کشمیر سے کم خوبصورت نہیں ہوگا کیونکہ بارش کے بعد ہر طرف سبزہ اور ہریالی نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ کارونجھر کے سرخ پہاڑ میں بھی سبزہ اگ آتا ہے۔ حکومت نگر پارکر کے علاقے کے لوگوں کو پانی کی فراہمی کے لیے کرونجھر ڈیم تعمیر کررہی ہے کیونکہ مون سون کے موسم میں بارش کا پانی پہاڑ سے نیچے آکر ندیوں میں بہتا ہے۔ مون سون کی وجہ سے اگست اور ستمبر ٹھنڈے مہینے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں گھر بنانے کا ایک خاص طریقہ رائج ہے جسے "چوئنرا"کہتے ہیں جو سردی میں گرم اور گرمی میں ٹھنڈا رہتاہے اور بارش کے پانی سے بھی محفوظ رہتا ہے۔

کارونجھر کے خوبصورت پہاڑ اب بہترین پکنک پوائنٹ بھی بن گئے ہیں ہزاروں سیاحوں ان خوبصورت پہاڑوں کے دیکھنے کے لیے تھر کا سفر کرتے ہیں حکومت اگر سیاحوں کو مزید سہولیات فراہم کرے تو یہ تعداد بڑھ بھی سکتی ہے۔ کیونکہ تھرپاکرمیں معدنیات کے دریافت کے بعد ڈسٹرکٹ تھر اب بین القوامی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ آج محترمہ بینظیر بھٹو کا وہ نعرہ کہ"تھر بدلے گا پاکستان" شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آرہا ہے واقعی تھر کی معدنیات سے پاکستان اور خصوصا سندھ بدل رہا ہے۔

Check Also

Balcony

By Khansa Saeed