Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Agha Shoaib Abbas/
  4. Sadhu Bela Mandir

Sadhu Bela Mandir

سدھو بیلا مندر

اقوامِ متحدہ کے منشور کے مطابق دنیا کے ہر فرد کو مذہبی آزادی دی گئی ہے۔ ہر فرد کو خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اس کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی آزادی ہے جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان کے جھنڈے میں جو سفید چاند ستارہ ہے وہ اقلیتوں کی آبادی کی نمائندگی کرتا ہے۔ پاکستان میں خصوصاً صوبہ سندھ مختلف اقلیتوں کی طرح ہندو برادری بھی اپنی مذہبی رسومات آزادانہ طور پر مناتے ہیں۔ چاہے وہ ہولی کا تہوار ہو یا دیوالی کا یا کسی خاص مندر میں مذہبی رسومات۔ صوبہ سندھ میں ہندو برادری اپنے مذہبی تہوار بڑے جوش و خروش سے مناتی ہے۔ سکھر میں سادھو بیلا کا مندر فنِ تعمیر کا حسین شہکار ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد شہر میں قائم اس مندر تک پہنچے کے لیے کشتی کے ذریعے پانی عبور کرنا پڑتا ہے۔ یہ مندر ہندوؤں کے لیے تیرت کا درجہ رکھتا ہے۔ جہاں جا کر ان کے پاپ دھل جاتے ہیں۔ 1823میں نیپال کے برہمن خاندان کے بھل چندر شرما جنہیں ان کے روحانی پیشوا نے بابا بانخاندی مہاراج کا خطاب دیا تھا۔ دریائے سندھ کے درمیان واقع اس جزیرے میں آئے چالیس برس تک یہاں تپسیا کی اور شری انویرنا یعنی رزق دینے والی ماتا کا چکہ کاٹا اور 1863میں چل بسے۔ بابا بندکھاندی مہاراج کے زمانے میں یہ مندر 500سے1000سادھوں کامسکن تھا۔ جنہیں پوجا پاٹ کے علاوہ علم و ادب کی تعلیم اور مفت رہائش ولباس کی سہولت فراہم کی جاتی تھی۔ میر سہراب خان نے چاندی کے پتر پر سادھو بیلا کا علاقہ بابا بندکھاندی مہاراج کے نام کر دیا تھا۔ جب سے اب تک یہ جگہ ہندوؤں کے لیے ایک اہم مذہبی عبادت گاہ کا درجہ رکھتی ہے۔

سدھو بیلا کا لفظ سنتے ہی لوگوں کا ذہن میں درویش اور گھنے جنگل کا تصور ابھرنے لگتا ہے۔ دریائے سندھ کی لمبائی 1700 میل ہے۔ اٹک سے لے کر کراچی کا ساحل تک دریائے سندھ پر یہ واحد جزیرہ ہے جس پر ملک کا سب سے بڑا مندر (تیراہ آستان) موجود ہے۔ 1823ء میں ہجرت کر کے آنے والے بابا بندکھاندی مہاراج نے دریائے سندھ کے جزیرے پر پوجا پاٹ کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر سال اسراح کی 13، 14، 15تاریخ کو ہونے والی سالانہ میلے پر انڈیا، برطانیہ، کینیڈا، امریکا سمیت دنیا بھر میں قائم پذیر سندھی ہندی ایام پر رسومات کی ادائیگی کے لیے آتے ہیں عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ اگر ہم چھوٹے ایک ہزار مندر میں عبادت کرتے ہیں اس کا ثواب ایک طرف اور تیرہ استان سدھو بیلا میں عبادت کرنے کا ثواب ایک طرف ہوتا ہے۔

ہندو برادری کے افراد مرنے والوں کی آرتھی کی راک یہاں ڈالتے ہیں تاکہ مردے کو زیادہ ثواب حاصل ہو۔ قیامِ پاکستان کے فوراً بعد پولیس کی جانب سے سدھو بیلا کا گدّی نشین بابا گانیش داس کو ہراست میں لے لیا گیاتھا۔ بابا گانیش داس ایک ماہ تک قید میں رہے اور رہائی کے فوراً بعد وہ بھارت منتقل ہو گئے۔ سدھو بیلا میں دیگر چھوٹے بڑے مندراور سمدہیان ہیں کم و بیش 9ایکڑ رقبے پر محیط تیرہ استان کے علاوہ سادھو بیلا میں بابا بکھندی مہاراج مندر، ماتا اناپوری مندر، ہنومن مندر، سری چند مندر، گانیش مندر، سیو ؤ مندر اول، سیوؤ مندر دوہم، راما پیر مندر، سمدھیان بھی ہیں۔

جبکہ سانت سوامی نارائن مندر کی حقیقی جگہ اب تک معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ سادھو بیلا میں اس وقت 48کمرے ہیں جو باہر سے آنے والے سیاح کی رہائش کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ہندو پنچائیت کی جانب سے زائرین کو تمام سہولیات مہیا کی جاتی ہیں سادھو بیلا میں ایک لائبریری بھی قائم ہے جس میں سیکڑوں کتابیں موجود ہیں ان کتابوں کا مطالعہ کرنے کے علاوہ سیاح آگ کی پوجا اور گانیش دیوا کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سابق صدر آصف علی زرداری نے ہندوؤں کی عبادت گاہ کی بہتری کے لیے 48کروڑ روپے کا پیکیج دیا تھا۔ جس سے یاتریوں کوبہتر سہولیات مہیا کرنے کے لیے مزید 74کمرے، 5جدید ہال، سندھ کے صوفیوں، درویشیوں سے متعلق گیلری قائم کی گئی ہے اور تزین و آرائش کا کام کیا گیا، اس کے علاوہ اس رقم سے سادھو بیلا کو سیلابی پانی سے محفوظ رکھنے کے لیے دیوار بھی تعمیر کی گئی ہے۔

صوبہ سندھ کے محکمہ مئنارٹی افئیرز کی جانب سے سادھو بیلا پروجیکٹ پر کام ہوتا رہتا ہے۔ تاکہ پاکستان بھر سے آنے والی ہندو برادری کے عقیدت مندوں کو بہتر سہولیات مہیا ہو سکیں۔ دریائے سندھ کے جزیرے پر قائم ہندوؤں کی سب سے بڑی عبادت گاہ سادھو بیلا کی نگرانی اور دیکھ بھال کے لیے متروکہ وقف املاک کی جانب سے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ جس میں انتظامیہ کے لوگ کنارے سے سادھو بیلا تک آنے والے عقیدت مندوں کوکشتی کے ذریعے پہنچاتے ہیں۔ سادھو بیلا کے وسیع لان اور درختوں کی دیکھ بھال کے لیے انتظامیہ نے لوگ رکھے ہوئے ہیں جبکہ حکومتِ سندھ مندر کی میٹینس اور ہر سال لگنے والے میلے کے لیے سالانہ پانچ لاکھ روپے دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ہندو پنچائیت کمیٹی کو دس لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔

سادھو بیلا بننے سے پہلے یہاں دو پہاڑیاں ہوتی تھیں اور جنگل ہوتا تھا جس کا ذکر ہندو مذہب کی سب سے پہلی مقدس کتاب رگویڈ میں بھی ہے۔ یہ مقام دریا کے وسط میں واقع ہے اور اسے مینک پروٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جہاں پر بڑے بڑے مہاراہشی عبادت کرتے ہیں۔ ہندو مذہب کی کتابوں کے مطابق سادھو بھکندی بابا مینک پربت کی تعریف سن کر نیپال سے یہاں آئے اور ٹھیک اسی جگہ مینک پروت پر سادھو بیلا کی بنیاد رکھی۔ واضح رہے کہ ہندو مذہب میں دریائے سندھ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ رگویت میں سندھو دریا کا ذکر سو سے بھی زیادہ مرتبہ کیا گیا ہے۔

سادھو بیلا انتظامی کمیٹی کے چئیرمین کہتے ہیں کہ سادھو بیلا کے بانی بابا بنکھندی مہاراجہ اداسین کا جنم دھرماکیروکھیرتر کے مقام پر پنڈت رام چندر شرما گورھ برہامن کے گھر میں ہوا۔ ان کا نام بھل چند شرما تھا۔ نو برس کی عمر میں اپنی ذہانت کی وجہ سے انہوں نے بہت علم حاصل کیا اور جب والد نے بہت محبت و عزت سے اس بچے کو شری میلا رام اداسین کے حوالے کیا۔ جنہوں نے 1830میں اپنا شاگرد بنا کر اداسین فرقے میں شامل کر لیا اور بھکندی نام رکھ دیا۔ انہوں نے سولہ برس کی عمر میں مذہبی تعلیم حاصل کر لی اور لاتعداد یاتریاں کرتے ہوئے سندھ آئے۔ جس کا نام انہوں نے سری سادھو بیلا رکھا۔ بابا بھکندی 60سال کی عمر میں یہاں آئے تھے۔ چالیس سال سادھو بیلا میں رہے اس میں سے بیس سال تالپوروں کی حکومت تھی اور بعد میں بیس سال انگریز سرکار رہی۔

مندر میں جس جگہ سنگِ مرمر کا سنگھاش ہے وہاں تین بڑے بڑے سایہ دار درخت لگے ہوئے ہیں۔ جو بھکندی مہاراجہ نے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے۔ یہ درخت تریشول کی شکل میں لگائے ہیں۔ ایک گدی کے مشرق کی طرف دوسرا مغرب کی طرف اور تیسرا گدی کے عین سامنے ہے۔ آج کئی سال گذرنے کے باوجود یہ درخت قائم و دائم ہیں۔ ان درختوں کے نام برہما، وشنو، ماہیش ہیں۔ بابا بھکندی کا جسم دریائے سندھ کے پانی کے حوالے کردیا گیا۔ سادھو بیلا کے نام سے دریا میں سکھر کے اس مقام پر اشتھان کی شاخیں بنائی گئی ہیں۔

سندھ اسمبلی کی اقلیتی رکن کا کہنا ہے کہ سادھو بیلا کی اربوں روپے کی جائداد شہر سمیت ملک و بیرون ملک میں موجود ہے سادھو بیلا اور بابا بھکندی مہاراج کے چاہنے والوں نے افغانستان کے دارالحکومت کابل، کوئٹہ اور بھارت کے مختلف علاقوں میں میڈیکل کالج، یونیورسٹی، انجنئیرنگ یونیورسٹی، اسپتال، دھرم شالہ، درسگاہیں، سادھو بیلا کے نام مختص کی ہیں۔

پاکستان میں اقلیتی برادری آزادانہ طور پر اپنے مذہبی رسومات ادا کرتی ہے۔ جو اس بات کا مظہر ہے کہ پاکستانی حکومت دعوے نہیں کرتی بلکہ مذہبی آزادی کے عملی اقدام بھی کر رہی ہے۔ جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومتِ سندھ اقلیتوں خصوصاً ہندو برادری کے مذہبی عقائد کو کتنا احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

Check Also

Aaj Tum Yad Be Hisab Aaye

By Ilyas Kabeer