Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Agha Shoaib Abbas/
  4. Karachi Mein Jang e Azeem Doim Ka Qabristan

Karachi Mein Jang e Azeem Doim Ka Qabristan

کراچی میں جنگِ عظیم دوئم کا قبرستان

ہر انسان دنیا میں آنے کے بعد دھرتی کے سینے پر اپنے رہنے کے لیے گھر بناتا ہے اور دنیا سے جانے کے بعد اس کی گہرائیوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ ساری دنیا میں زمین کے طول و عرض پر اگر رہائیشی عمارتیں ہیں تو ابدی آرام گائیں بھی ہیں۔ شہرِ کراچی میں بھی رہائیشی بستیوں کے ساتھ خاموش بستیاں بھی ہیں۔ اگر کراچی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کیا جائے تو شہر میں زندہ انسانوں کے ساتھ ساتھ شہرِ خموشاں بھی نظر آئنگے۔ جن میں بیشتر پچاس ساٹھ سال قدیم ہیں جبکہ بعض پاکستان بننے سے قبل کے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک قبرستان جنگ ِ عظیم دوئم کا بھی ہے۔ یہ کراچی شہر کے گنجان آباد روڈ شہید صبغت اللہ شاہ پگارہ روڈ پر واقع ہے۔ یہ کراچی میں عیسائی اور یہودی فوجیوں کی یادگار ہے۔ ایک سبزہ زار پر خاص ترتیب میں لگے کتبے اپنے اندر دوسری جنگِ عظیم کی کہانیاں سموئے خاموش نظر آتے ہیں۔ قبروں پر کتبے لگانے کی تاریخ قدیم ہے سب سے پہلے یونانیوں اور رومنوں نے اپنے عزیروں کی قبروں کی شناخت کے لیے کتبوں کا باقاعدہ استعمال کیا۔

۶۲ سال سے اس خوبصورت جگہ سے وابستہ منتظم کے مطابق Common Wealth War Grave Commission (دولتِ مشترکہ کی جنگی قبروں کا کمیشن) کی بنیاد ہی اس بات پر رکھی گئی کہ جنگِ عظیم اول اور دوئم میں جن لوگوں نے لڑتے ہوئے جان دی ہے ان کی یادگاریں بنائی جائیں اور ان کو ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ اس سے پہلے اس کمیشن کا نام Imperial War Grave Commission تھا. جنگِ عظیم دوئم سن1939 سے سن 1945ء کے درمیان لڑی گئی جس میں ایک طرف برطانیہ، فرانس اور روس تھے تو دوسری طرف جرمنی، آسٹریا، ہنگری اور اٹلی وغیرہ تھے جنگِ عظیم اول اور جنگِ عظیم دوئم میں ناصرف کڑوروں انسان جاں بحق ہوئے بلکہ کڑوروں کی املاک کا نقصان بھی ہوا۔ اگر چہ اس جنگ میں جرمنی جس کی قیادت ہٹلر کر رہا تھا اس کو شکست ہوئی چونکہ اس وقت انڈیا (موجودہ انڈیا، پاکستان اور بنگلادیش) برطانوی حکومت کی کالونی تھی۔ سن1939ء میں انڈین آرمی کی تعداد دو لاکھ پانچ ہزار تھی جو اتحادی آرمی کا ساتھ دے رہی تھی۔ جس کو اس وقت کی سپر پاور انگلینڈ کی حکومت کنٹرول کرتی تھی۔ اور ظاہر ہے کہ انگلینڈ اتحادی آرمی کا حصہ تھا اور اس علاقے کی افواج کو مخالف اتحادی افواج سے لڑنا تھا۔ اس وجہ سے یہ قبریں یہاں بنی ہیں۔

وہاں کے منتظم کے مطابق کوشش کی گئی کہ جہاں زیادہ ڈیڈ باڈیز ہوں وہی پر مختلف قبرستان بنائے جائے۔ چنانچہ قبرستان کے سامنے کیمپ ہسپتال تھا جو کہ اب آرمی اسکول ہے۔ یہاں پر مختلف جگہوں سے زخمی آتے تھے اور ان میں سے جن زخمیوں کا انتقال ہوجاتا تھا تو یہاں پر ان کو دفنا دیا جاتا تھا۔ بعد میں جب کمیشن قائم ہوا اور جگہ تلاش کی گئی تو یہ جگہ سب سے مناسب لگی۔

کراچی میں یہ جگہ اس وقت آبادی سے بہت دور تھی اور زیادہ باڈی یہاں پر دفن تھیں تو اس لیے اسکا انتخاب کیا گیا۔ 1975ء میں اس کو صدر پاکستان اسکندر مرزا نے افتتاح کیا۔ اس قبرستان میں 246 قبریں ہیں ان میں کچھ قبروں پر سلیب کا نشان ہے اور کچھ پر یہودیوں کا اسٹار کا نشان ہے۔ وا ضح رہے کہ روس جنگِ عظیم دوئم میں اتحادی افواج کے ساتھ تھا معنی برطانیہ اور امریکا کے ساتھ بعد میں سرد جنگ کا آغاز ہوا جس میں امریکا اور روس ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے۔ اس کمیشن کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی بنیاد مذہب پر قائم نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ اس قبرستان میں افسروں کی قبریں بھی ملے گی اور نان افسروں کی بھی۔ برابری کی بنیاد پر ان کو دفن کیا گیا ہے۔ یہاں 17 سال سے لے کر 50 سال تک کی عمروں کی قبریں ہیں۔ نرس ہو یا ڈاکٹر، کرنل ہو یا سپائی، کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں۔ اس قبرستان میں ایک مخصوص دیوار بھی ہے جس پر جنگِ عظیم اول کا نام لکھا ہوا تھا۔ جنگِ عظیم اول جو سن 1914ء سے سن 1918ء تک لڑی گئی۔ جو فوجی اس جئگ میں کام آئے اور پورے پاکستان میں مدفون ہیں۔ اس دیوار پر کچھ فوجیوں کے نام بھی لکھے ہیں۔ اس دیوار پر انگریزی میں ہے لکھا ہے۔

The solders whose names are honored here served and died during the 1914-18 war and are buried else where in Pakistan

کتبے، پھول اور پودے ایسی ترتیب میں ہیں کہ دیکھنے والا خوش ہوجائے۔ اس قبرستان کے لیے صرف تین مالی اور ایک مینیجر پر مشتمل چار لاگوں کا عملہ مصروفِ عمل ہیں جن کے پاس جدید مشنیری اور آلات ہیں جو قبرستان کو صاف و ستھرا رکھتے ہیں۔ پاکستان اور خصوصاً کراچی میں دہشت گردی کی وجہ سے غیر ملکی کم آتے ہیں لیکن وہاں کے ملازمین کے مطابق ان کے رشتے دار کبھی کبھی آتے ہیں۔ لیکن خاص بات یہ ہے کہ ابھی پچھلے دنوں یہاں پر برطانیہ کے جو مسلمان میئر منتخب ہوئے ہیں انہوں نے اپنے اتحادی افواج کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اس قبرستان کا دورہ کیا تھا اور ان فوجیوں کو بھرپور طریقے سے خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اس کے علاوہ یہاں پر یاد کے پتھر (Stone of Remembrance) بھی ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں دو یادگاریں اور بھی ہیں ایک کراچی میں ہے اور ایک دہلی میں ہے۔

دونوں یادگاریں ایک جیسی ہیں اسی لیے ان کو ٹوئن میموریل بھی کہنے ہیں۔ اس یادگار میں پچیس ہزار سپائیوں اور ہوابازوں کے نام بھی درج ہیں جو پاکستان کے مختلف جگہوں پر مدفون ہیں یا شائد غیر مقسم انڈیا میں۔ لیکن ان کی قبروں کا صحیح علم نہیں ہے۔ ہاتھ سے لکھی ہوئی کتاب ہے جس کی خطاطی بہت خوبصورت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کمپوٹر سے اس کی کمپوزنگ کی گئی ہے۔ جو سن1975ء میں محمد شفیع مہرانوی نے لکھی۔ اس کتاب میں وہ تمام رجمنٹ بھی شامل ہیں۔ جو آج موجودہ پاکستان میں موجود ہیں مثلاً بلوچ رجمنٹ، پنجاب رجمنٹ، سندھ رجمنٹ وغیرہ وغیرہ۔ اس کتاب میں جو نام لکھے ہیں ان میں عیسائی، مسلمان، اور یہودی سب ہیں۔ دولتِ مشترکہ کی جنگی قبروں کا کمیشن کا ہیڈ آفس کراچی میں ہے۔ ان یادگاروں میں جنگ میں کام آنے والوں کے ساتھ ساتھ ایک یادگار اور بھی تھی یعنی دو پاکستان۔ جو ایک تلخ حقیقت ہے۔ جب دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک دو لخت ہوگیا۔

کراچی کا جئگِ عظیم دوئم کا قبرستان عیسائی، یہودی اور مسلمان فوجیوں کی عظیم یادگار ہے۔ اپنے فوجیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا اتنا خوبصورت طریقہ حساس اور زندہ قومیں ہی اپنا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ان ہی کا سکہ چلتا ہے یعنی ڈالر اور پاؤنڈ، دنیا کی تجارت انہی کی کرنسی میں ہوتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ برطانیہ کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ دینا کے کئی ممالک برطانیہ کی کالونی تھے۔

Check Also

Youm e Sasural

By Mubashir Aziz