Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Adil Ahmad/
  4. Tasawurati Islami Dunya

Tasawurati Islami Dunya

تصوراتی اسلامی دنیا

مطالعہ کرتے کرتے جب تھکاوٹ محسوس ہوئی تو یوٹیوب سے انٹرٹینمنٹ کے لیے کچھ ویڈیوز دیکھنے لگے تو وہیں اسلامی سنہرے دور پر بنائی گئی ایک ڈاکومنٹری نظر آئی۔ اس ڈاکومنٹری کو دیکھنے کا دل کیا تو بغیر کسی دیر کے ڈاکومنٹری دیکھنے لگا۔ دیکھتے دیکھتے گہری سوچوں میں گم ہوگیا تو دماغ اپنی ایک ایسی اسلامی دنیا بنا کے پیش کی جو آج کی اسلامی دنیا سے انجان اور ناواقفِ لگنے لگی اور اس خیالی اسلامی دنیا کا دہشت گردی اور پریشانیوں سے بھری پڑی اسلامی دنیا سے دور تک کوئی تعلق نظر نہیں آیا۔ دل نے مجبور کردیا کہ اگر دماغ کی بنائی ہوئی اسلامی دنیا کو قلم بند نہ کیا تو دماغ کے ساتھ بہت زیادتی ہوگی، میں نے بھی دل کی مانی اور دماغ کی مشقت سے بنائی ہوئی اسلامی دنیا کو اس مضمون میں قلم بند کر رہا ہوں۔

اسلامی دنیا کا سنہرا دور ہر طرف خوشحالی اور ترقی کا منظر پیش کرتا ہے۔ سائنس کی ترقی سے لے کر ارٹییٹیکچر کے میدان تک ہر روز نت نئے ائیڈیاز جنم لے رہے تھے۔ بغداد ہو یا غرناطہ، اصفہان ہو یا بخارا، ہر طرف علم و دانش، منطق اور فلسفہ کی باتیں ہوتی تھی۔ لوگوں میں کائنات کے چھپے رازوں کو جاننے کا بڑا شوق تھا۔ اس لیے وہ دور مسلمانوں کا سنہرا دور رہا اور ترقی کا دور رہا۔

میرا دماغ اسی دور سے متاثر ہوکر آج کی اسلامی دنیا سے بلکل مختلف دنیا بنائی۔ جب ناچیز کا دماغ بیت الحکمت کا نام سنا اور اس میں ہونے والے علمی کاموں سے واقف ہونے لگا تو دماغ ایک ایسے اسلامی شہر کا نقشہ کھینچنے لگا جو عالم اور دانشوروں سے بھرا ہوا اور ہر گلی ایک سے بڑھ کر ایک اچھی لائبریری اور اس میں مطالعہ کرنے والوں کے کائنات کے رازوں کو کھوجنے کی جستجو کو پیش کرتا ہے۔

شہر کا منظر کچھ یوں ہے، ایک چھوٹا سا اسلامی شہر ہے اور شہر کے چاروں طرف ایک بڑی دیوار ہے۔ شہر میں داخل ہونے کے لیے چاروں طرف دروازے ہیں اور دروازے پر آنے جانے والوں پر نظر رکھنے والے کچھ محافظ ہر وقت ہوتے ہیں۔ اس کے بالکل مرکز میں ایک بڑی لائبریری ہے اور ساتھ ہی اس کے ساتھ جڑے ہوئے مسجد ہے لوگ اس لائبریری اور مسجد کو دار العلوم یعنی علم کے مرکز کے نام سے پکارتے ہیں۔ چاروں طرف سے لائبریری تک پہنچنے کا فاصلہ تقریباً برابر ہے۔ یہ لائبریری اور مسجد اسلامی فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ یہ شہر اسلامی دنیا کا مرکز ہے اور دور دور علاقوں سے لوگ یہاں علم حاصل کرنے آتے ہیں۔ کئی نامور مسلمان دانشور، فلسفی اور سائنسدان اسی شہر میں رہتے ہیں اور زیادہ تر ان کا وقت اسی لائبریری میں گزرتا ہے۔

دارالعلوم یعنی اس لائبریری کا ایک حصہ کتابوں کا ترجمہ کرنے کے لیے مختص ہے وہاں ہر وقت محتلف کتابوں کا ترجمہ ہوتا ہے۔ اس میں سائنس اور فلسفہ سے لے کر ہر میدان کی کتابیں ترجمہ ہوتے ہیں۔ مغربی دنیا کے سائنس اور فلسفے کی کتابیں یہیں سے ترجمہ ہوتے ہیں اور شہر کے کونے کونے تک پہنچ جاتی ہیں۔ قدیم یونانی فلسفیوں اور سائنسدانوں کی کتابوں سے لے کر دور جدید کے مغربی سائنسدانوں اور فلسفیوں کی کتابیں ترجمہ ہوتے ہیں اور ان پر بحث ہوتی رہتی ہے۔

شہر کے جس کونے چلے جاؤ وہاں آپ کو لوگوں گروپ کی شکل میں بیٹھ کر فلسفہ اور سائنس کے بارے میں گفتگو کرتے سنو گے۔ بازار کے ہر دو قدم پر آپ کو کتب خانے نظر آئیں گے اور وہاں لوگوں کو کتابیں خریدتے ہوئے دیکھنے کو ملیں گے۔ اس بازار کے ہر تاجر یا تو فلسفی ہے یا سائنس دان۔ وہ اپنی اپنی دکانوں پر بیٹھ کر تجارت بھی کرتے ہیں اور ساتھ کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔

علم و دانش، فلسفہ اور سائنس کے علاؤہ لوگوں کے پاس بات کرنے کے لیے کوئی اور موضوع ہے ہی نہیں۔ جو تھوڑا بہت امیر ہوتا ہے ان کے اپنے اپنے گھروں میں چھوٹی چھوٹی لائبریری ہوتی ہے وہ ہر وقت اپنی لائبریریوں میں کتابیں پڑھنے میں مشغول ہوتے ہیں اور جو اپنی لائبریری نہیں بنا سکتے ہیں وہ دارالعلوم میں جاتے اور وہاں بیٹھ کر پڑھنے میں گزارتے ہیں۔

اس لائبریری یعنی دارالعلوم میں ہر وقت کوئی دانشور، فلسفی اور سائنسدان اپنے نئے آئیڈیاز لوگوں کے سامنے بیان کرتے نظر آتا ہے۔ جعمہ کی نماز کے بعد ہر جعمہ کو اس لائبریری میں ایک بڑی محفل ہوتی ہے اور اس محفل میں نامور دانشور، سائنسدان اور فلسفی کوئی نئی موضوع ان کے سامنے پیش کرتے اور اس پر بحث ہوتا ہے۔ اس لائبریری میں لوگ ہر وقت تحقیق کرتے اور کتابیں پڑھتے نظر آتے ہیں۔

پوری دنیا کے لیے یہ ایک مثالی شہر ہے اور یہاں سے علم کتابوں کی صورت لے کر باہر دنیا کو جاتی اور لوگ ان کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں۔ فلسفی ہو یا سائنس دان ان کی کتابیں یہاں آتی اور یہاں سے ان کی کاپی بن کر دوسرے حصوں کو جاتے ہیں۔ اس طرح یہ شہر اسلامی دنیا کا ایک اور ایک سنہرا دور کا آغاز کر دیا۔

یہ تھا میرے خیالوں کا ایک اسلامی دنیا اور ان میں ہونے والے علمی کاموں کا۔ بغیر چاہتے ہوئے بھی میرے دماغ نے یہ ایک تصوراتی اسلامی دنیا بنا کے پیش کر دی۔

Check Also

Agle Janam Mohe Bitiya Na Keejo

By Amer Abbas