Pakistani Muashre Mein Myth Ka Kirdar
پاکستانی معاشرے میں متھ کا کردار
پاکستانی معاشرہ روایات، عقائد اور کہانیوں سے بھرا ہوا ہے، جن میں سے بہت سی چیزیں حقیقت کے بجائے خرافات یا متھ پر مبنی ہیں۔ یہ متھ صدیوں سے ہماری زندگیوں میں سرایت کر چکی ہیں اور ہمارے فیصلوں، خیالات اور رویوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ان خرافات کا اثر ہر طبقے پر ہوتا ہے، لیکن خاص طور پر مرد و خواتین کو ان کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ خرافات ان کی شخصیت، زندگی کے فیصلوں اور معاشرتی کردار پر گہرا اثر ڈالتی ہیں اور ان کی آزادی اور ترقی کو محدود کر دیتی ہیں۔
پاکستانی معاشرت میں خواتین کو اکثر ان خرافات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کے کردار اور زندگی کے فیصلوں کو روایات اور عقائد کے تابع کر دیتی ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم اور شادی کے حوالے سے بہت سی خرافات رائج ہیں، جن کے باعث ان کی زندگی کی سمت کا تعین بڑے افراد کی مرضی سے ہوتا ہے۔ ایک عام تصور یہ ہے کہ اگر لڑکی کی شادی وقت پر نہ ہو تو اس کے نصیب خراب ہو جائیں گے یا یہ کہ شادی کی تاریخ یا دن میں کسی قسم کی غلطی زندگی بھر کی بدقسمتی کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ غیر منطقی خیالات خواتین کی آزادی کو محدود کرتے ہیں اور انہیں اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کے حق سے محروم کر دیتے ہیں۔ اسی طرح، لڑکیوں کو اکثر بتایا جاتا ہے کہ "زیادہ نہ ہنسو، یہ عورتوں کے لیے اچھا نہیں" یا "زیادہ نہ بولو، ورنہ لوگ تمہیں برا سمجھیں گے"۔ یہ رویے ان کی خود اعتمادی کو متاثر کرتے ہیں اور انہیں اپنے خیالات کے اظہار سے روکتے ہیں۔
خواتین کی ازدواجی زندگی میں بھی خرافات کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ شادی کے بعد عورت کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد صرف شوہر اور خاندان کی خدمت کرنا ہے۔ اگر کسی وجہ سے بچے کی پیدائش میں تاخیر ہو تو اسے مختلف تعویذ، وظیفے، یا غیر سائنسی طریقے اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حاملہ خواتین کو اکثر ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ "چاند گرہن کے دوران باہر نہ جاؤ، ورنہ بچے کو جسمانی نقص ہو سکتا ہے" یا "اگر جھوٹ بولو گی تو بچے کی قسمت خراب ہو جائے گی"۔ یہ غیر سائنسی عقائد ان کی ذہنی اور جذباتی صحت کو متاثر کرتے ہیں اور غیر ضروری خوف پیدا کرتے ہیں۔
اس کے برعکس، مردوں کو ایک مختلف قسم کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو خرافات اور روایتی عقائد سے پیدا ہوتا ہے۔ مردوں کو اکثر یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ جذبات سے عاری، سخت دل اور ہر وقت مضبوط رہیں، کیونکہ "مرد روتے نہیں"۔ یہ غیر حقیقی توقعات ان کے جذباتی مسائل کو بڑھا دیتی ہیں اور انہیں اپنے احساسات ظاہر کرنے سے روکتی ہیں۔ معاشرتی دباؤ کے تحت، مردوں سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہر حال میں خاندان کی تمام مالی اور سماجی ضروریات پوری کریں گے، چاہے وہ خود کتنے ہی دباؤ میں کیوں نہ ہوں۔ اگر کسی مرد کو زندگی میں معاشی یا سماجی کامیابی حاصل نہ ہو تو اسے ناکامی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ رویہ ان کی ذہنی صحت اور خود اعتمادی کو متاثر کرتا ہے اور انہیں احساس کمتری کا شکار بنا دیتا ہے۔
مردوں کو بچپن سے ہی ایسے خرافات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کی شخصیت پر گہرے اثرات ڈالتی ہیں۔ مثال کے طور پر، انہیں بتایا جاتا ہے کہ "اگر فلاں وقت میں فلاں کام کرو گے تو کامیابی یقینی ہوگی" یا "تمہاری قسمت وظیفے اور دعاؤں سے بدل سکتی ہے"۔ یہ غیر منطقی خیالات بچوں کو محنت اور جدوجہد کے بجائے خرافات پر بھروسہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جو ان کی تخلیقی اور منطقی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے۔
بچوں کو بھی اکثر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ "گھر کے بڑے جو کہہ دیں، وہی صحیح ہے"۔ یہ رویہ ان کے سوال کرنے اور اپنے خیالات کو آزادانہ طور پر پیش کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیتا ہے۔ بچپن کے یہ تجربات ان کی شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں اور انہیں پوری زندگی دوسروں کی مرضی کے مطابق چلنے کا عادی بنا دیتے ہیں۔
خرافات کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ یہ لوگوں کو محنت اور جدوجہد سے دور کر دیتی ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں یہ تصور عام ہے کہ کسی مقدس مقام پر جاکر دعا کرنے سے تمام مسائل حل ہو جائیں گے یا کہ کسی خاص دن کوئی کام کرنے سے قسمت بدل سکتی ہے۔ یہ خیالات انسانوں کو ان کی ذمہ داریوں سے غافل کر دیتے ہیں اور انہیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ ان کی کامیابی صرف دعاؤں اور قسمت پر منحصر ہے۔ نتیجتاً، معاشرہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتا ہے اور افراد اپنی زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔
پاکستانی معاشرے میں متھ کے نقصانات صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں رہتے بلکہ یہ مجموعی طور پر معاشرتی ترقی اور خوشحالی کو متاثر کرتے ہیں۔ خرافات لوگوں کے ذہنوں کو محدود کرتی ہیں، انہیں غیر ضروری خوف اور دباؤ کا شکار بناتی ہیں اور ان کی آزادی اور خودمختاری کو چھین لیتی ہیں۔ ان خرافات کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں تعلیم، شعور اور سائنسی تحقیق کو فروغ دیا جائے۔ مرد و خواتین دونوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کریں اور ان پر کسی قسم کے غیر حقیقی دباؤ یا روایات کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ ایک حقیقت پسندانہ اور ترقی پسند معاشرہ ہی خرافات سے پاک ہو سکتا ہے اور یہ قدم نہ صرف انفرادی بلکہ قومی ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔