Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Adam Hussain
  4. Ilmi Pyas Aur University Of Naseerabad

Ilmi Pyas Aur University Of Naseerabad

علمی پیاس اور یونیورسٹی آف نصیر آباد

اکثر لاہور کی طرف جانا ہوتا ہے سفر سے لگاؤ کے باعث لاہور کو اپنے لئے سیاحت کا مرکز ہی سمجھ رکھا ہے کیونکہ اس شہر سے صرف سفری سیاحت کے مزے نہیں ملتے بلکہ علمی و ادبی ذوق کو پورا کرنے کے مواقع بھی ہاتھ آجاتے ہیں۔ اس معاملے میں ٹرین کے سفر کو ہمیشہ اوّلین ترجیح دے رکھی ہے۔ اس دفعہ بھی جب لاہور کی طرف گامزنِ سفر ہونے لگا تو اسٹیشن پہ دو درجن طلباء کو ہاتھوں میں کتاب تھامے ریل کے انتظار میں دیکھا، جن میں سے کچھ تو جانے پہچانے تھے اور باقیوں کے ساتھ طالب علمی کے رشتے کے علاوہ کوئی پہچان نہ تھی۔

اس سے پہلے بھی جب کبھی پنجاب کی طرف جانا ہوا تو درجنوں طلباء کو اپنا ہمسفر دیکھا میرا مقصد نہ تو اپنے سفر کا بتانا ہے اور نہ ہی ان طلباء کے بارے میں تفصیلات دینے ہیں۔

اس تحریر میں پنجاب و دیگر صوبوں میں جانے والے طلباء پر اس لئے زور دی جارہی ہے کہ یہ صوبہ بلوچستان کے صرف ایک زون جسے Green Belt کے نام سے جانا جاتا ہے کے ہزاروں طلباء اپنی علمی پیاس بجھانے کی خاطر پنجاب و دیگر صوبوں کی طرف ہمہ تن سفر رہتے ہیں جو ہزاروں روپے ہر ماہ خرچ کرکے چارچار، پانچ پانچ سال اپنے گھروں سے باہر رہ کر اپنے والدین کی تمام جمع پونجی کو خرچ کرکے ڈگری لے لیتے ہیں۔

انکا یہ علمی شوق تاریخ کے طیاروں میں ایک گونج ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ ہم علم کے پیاسے ہیں ہم چارسدہ و چولستان جا کر اپنے اس علمی پیاس کو بجھانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ وہ جوان ہیں جن کے گھروں میں موجود جمع پونجی والدین ان کے اوپر خرچ دیتے ہیں ان کے علاوہ کم و بیش پچیس لاکھ آبادی رکھنے والا بلوچستان کا یہ سر سبز و شاداب ڈویژن کے ریڑھی لگانے والا، دکان چلانے والا، نصیر آباد کے کھیتوں میں ہریالی اگانے والا اس انتظار میں بیٹھا ہے کہ نصیر آباد جس میں پیدا ہونے والا گندم بیرون ممالک برآمد ہو رہی ہو اس کو کب یونیورسٹی ملیگی اور کب ہم کسانوں اور بزگروں کے بچے بھی اس میں جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گے اور آنے والے وقتوں میں ہمارا اور ہمارے ملک و قوم کا سہارا بنیں گے۔

نصیر آباد بلوچستان کا وہ ززون/ ڈویژن ہے جہاں کسی قسم کے ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں شاعر پیدا ہوئے۔ لکھاری اپنے قلم کے زور کو زمیں کے کونے کونے میں آزمانے کیلئے تیار بیٹھے ہوں۔

جہاں پہ لوگ مختلف شعبوں میں اپنے ہنر کا لوہا منا بیٹھے ہوں، جہاں پہ لوگ پنڈ پنڈ پہ جاکر لائبریریاں قائم کرنے میں مصروف ہوں، جہاں پہ سینکڑوں لوگ رضا کارانہ تنظیموں کو غرباء و مساکین کے مدد کیلئے فعال بنائے ہوئے ہوں، جہاں کے لوگ پاکستان بھر میں میڈیکل، انجینئرنگ، انتظامیہ، ایکٹنگ، فوج، سیاست و ثقافت اور مذہبی شعبوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوں وہ نصیر آباد آج ایک یونیورسٹی کو ترس رہی ہے۔

اس کے برعکس نصیر آباد سے دو وزیراعظم، درجنوں وفاقی وزیر اور بارہا صوبائی وزیرِ تعلیم بننے والے بھی اس زون کے عوام کے سامنے بے بس و لاچار نظر آئے۔ یہ بے بس کیوں نظر نہ آئیں کیونکہ ان کے بچے تو لندن و پیرس سے ڈگریاں لے کر پہنچیں گے اور انہیں یہ بھی تسلی ہے کہ انکے بعد ان کے حلقے کا صوبائی ممبر بھی ان کے اولاد میں سے ہوگا اور وفاقی رکن بھی انہی کے ہی آل و عیال سے منتخب ہونا ہے تو پھر کیوں اپنی نیندیں ان حلقوں کے سوئے ہوئے لوگوں کیلئے حرام کر بیٹھیں۔

انکو نہ تو شعور آنے دو اور نہ ہی یہ معلوم ہونے دو کہ اس حلقے میں جامعہ ہونے کے کیا فائدے ہیں ان کے جوانوں کو چار، پانچ سال پڑھنے کے بعد کہیں کسی سرکاری افسر کا چپڑاسی مفت میں لگوا دو اور آنے والے تین نسلوں کے وؤٹ کا سپورٹ اپنے نام کر لو۔

مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود مجھے بلوچستان کے اس زون/ڈویژن کے جوانوں سے امیدیں وابستہ ہیں کہ یہ نالیوں، ٹونٹیوں، سڑکوں اور ٹرانسفارمرز کو ٹھکرا کے آنے والے انتخابات میں اپنے حلقے کے منتخب نمائندے سے اپنے اس ذہنی و زمینی زرخیز علاقے کیلئے "یونیورسٹی" کا مطالبہ سرِ فہرست رکھیں گے اور یہ عہد لیں گے کہ ہم بھوکے سوئینگے، آپ ہمیں بجلی نہ دو، نہ دو سڑکیں ہم آپ سے کچھ نہیں مانگتے آپ ہمارے پانی کے پیاس کو بجھانے میں مصروف نہ ہوجاؤ سب کچھ ہم خود کریں گے۔

آپ ہمارے ایک ہی مطالبے پہ کام کرو نصیر آباد کو یونیورسٹی دلا کر ہمارے علمی پیاس کو بجھانے کی کوشش کرو۔

Check Also

Pasand Ki Shadi

By Jawairia Sajid