Aik Party Do Bayaniye
ایک پارٹی دو بیانیے
گاوں والوں اور شہر والوں میں رشتہ داری طے پاگئی۔ گاوں کی لڑکی کا شہر کے بابو سے بیاہ ہونے جارہا تھا۔ آپ یوں کہیں کہ گاوں والے اور شہر والے ایک نئے بندھن میں بندھنے جارہے تھے۔ رشتہ طے پا گیا۔ شہر والے اپنی بہو کے لئے سونے کی انگوٹھی لے کر آئے اور رسم منگنی میں پہنا دی۔ وقت گزرتا گیا کچھ عرصہ کے بعد لڑکے والے آئے اور لڑکی والوں سے شادی کی تاریخ طے کرنے کی بات کی۔ لڑکی والوں نے کہا کہ آپ ابھی جائیں ہمیں کچھ وقت درکار ہے، بعد میں آئیے گا۔
لڑکے والے واپس چلے گئے۔ مہینہ گزرنے کے بعد لڑکے والے دوبارہ اپنے اسی مطالبے کے ساتھ گاوں میں حاضر ہوگئے۔ لڑکی والوں نے دوبارہ وہی جواب دیا کہ ہم ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں آپ کچھ وقت اور ہمیں دیں۔ لڑکے والے چلے گئے تیسری دفعہ پھر مہینہ کی دیر کے ساتھ آئے لیکن لڑکی والوں نے پھر معذرت کرنا چاہی۔
لڑکے والوں نے کہا کہ آپ شادی سے انکاری تو نہیں ہوگئے۔ ہمیں تیسری بار ہے آتے ہوئے اور آپ ہیں کہ ہر دفعہ وقت مانگ لیتے ہیں خیرتو ہے نا؟
تو لڑکی کا باپ بولہ اور اس نے کمال جواب دیا کہا کہ ہم بھی راضی ہیں اور شادی کے لئے لڑکی بھی راضی ہے "پر"۔
لڑکے والوں نے کہا پر کیا؟
اس نے جواب دیا کہ پر "کڑی دا ماما نئیں مان ریا"۔
(یعنی لڑکی کا ماموں نہیں مان رہا)
یہی کچھ ہماری پاکستانی سیاست میں بھی ہوتا ہے۔ امیدوارن بھی راضی ہوتے ہیں، عوام بھی، نئے حکمران کے انتظار میں ہوتی ہے لیکن حالات اس وقت تک نہیں بدل سکتے جب تک پاکستانی سیاست کا ماموں نا مان جائے۔
گزشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف نے لندن میں پارٹی سربراہوں کے ساتھ میٹنگ کی۔ جس میں سابق وزیراعظم میاں شہباز شریف تشریف فرما تھے۔ میاں نواز شریف صاحب نے جارحانہ مؤقف اپنا کر الیکشن میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ جس میں میاں صاحب نے یہاں تک فیصلہ کیا ان تین افراد کا کڑا احتساب ہوگا کیونکہ یہ تینوں لوگ قومی مجرم ہیں۔
سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید اور سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس اعجازالحسن۔
اس میٹنگ کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کا یہ مؤقف میڈیا پر گردش کرنے لگا اور شہباز شریف پاکستان تشریف لائے۔ ابھی چوبیس گھنٹے بھی وہ پاکستان میں نہیں رکے تھے کہ دوبارہ لندن کے لئے پرواز بھر لی۔ لندن میں دوبارہ بڑی بیٹھک سجی۔ سبھی سیاسی پنڈتوں نے سر جوڑے اور احتساب کے اس کڑے بیانیے سی ذرا پیچھے سرکتے ہوئے نظر آئے۔ ہوسکتا ہے میاں شہباز شریف صاحب نے جا کے یہی بتایا ہو کہ میں نے اسی بیانیے کی جا کے بات کی ہے لیکن پاکستان کی سیاست کا ماما اس بیانیے پر نہیں مان رہا سو اس لئے ایک قدم پیچھے ہٹنا ہی بہترہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن میں ہمیشہ سے دو دھڑے اور دو بیانیے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف مزاحمت کی سیاست جبکہ شہباز شریف صاحب مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ میاں نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ وہ بہت زیرک انسان ہیں۔ لیکن وہ ہمیشہ ایک غلطی کرتے ہیں وہ آرمی چیف سے لڑائی کو ایک شخص سے لڑائی سمجھتے ہیں جبکہ یہ ایک شخص سے لڑائی نہیں بلکہ ایک آفس یا ایک ادارے سے لڑائی ہے۔
اپنی انھی غلطیوں کی وجہ سے ان کے اسلام آباد میں موجود ہوتے ہوئے پی ٹی وی پر قبضہ بھی ہو جاتا ہے اور مشرف صاحب کو برطرف کرنے کے لئے لکھی گئی تقریر بھی میز پر ہی پڑی رہ جاتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے لئے میدان کوئی زیادہ کھلا نہیں ہے۔ اسٹیبلسمنٹ اگر چاہے تو ان حالات میں مسلم لیگ ن کو اچھا خاصا ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔
کیونکہ مسلم لیگ ن اکیس اکتوبر کو نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان کر چکی ہے اور مسلم لیگ ن بڑے میاں صاحب کے استقبال کی تیاریاں کر رہی ہے۔ جبکہ نواز شریف عدالت سے سزا یافتہ مجرم ہیں۔ بڑے میاں صاحب کو عدالت نے سات سال کی قید کی سزا سنا رکھی ہے۔ اسی قید کے دوران وہ عدالت سے چار ہفتے کی طبی بنیادوں پر ضمانت لیکر لندن علاج کی غرض سے روانہ ہوئے۔ لیکن چار ہفتے کی وہ ضمانت جنرل ضیاالحق کے نوے دنوں کی طرح سالوں پر طویل ہوگئی۔ اس سزا کے علاوہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے انھیں دو ریفرنسز میں اشتہاری قرار دے رکھا ہے۔
لہذا میرے خیال سے مسلم لیگ ن کے لئے یہ بہت مشکل امر ہے کہ وہ مزاحمتی بیانیہ کے ساتھ میدان عمل میں اترے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پاکستانی سیاست کے ماموں کو منائے اور پھر کوئی فیصلہ کرے۔