Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mir
  4. Urdu Ka Cultural Baggage Badlen

Urdu Ka Cultural Baggage Badlen

اردو کا "کلچرل پیکج" بدلیں

ایک زمانے میں استاد سمجھاتے تھے، تب بات سمجھ میں نہیں آتی تھی مگر مسلسل مطالعے، تجزیے اور مشاہدے سے معلوم ہوا کہ ان کا یہ خیال درست تھا کہ زبان دنیا بھر میں ابلاغ کا ذریعہ ہے اور لٹریچر اس زبان کے ذریعے سماج کی تفہیم کا ایک وسیلہ۔ لیکن اردو کے ساتھ معاملہ مختلف رہا ہے۔

یہ عوامی زبان ہونے کے باوجود شروع سے اشرافیہ کے قبضے میں رہی ہے۔ (اسی لیے اس کی ترقی کا سپریم ادارہ بھی "مقتدرہ" کہلاتا ہے)۔ اردو کے ساتھ ایک خاص ثقافتی احساسِ برتری، لٹریری ایلیٹ ازم، مذہب پرستی جوڑ دی گئی۔ یوں اردو زبان و ادب کی تعلیم محض لٹریچر کی تعلیم نہیں ہوتی، یہ پورا ایک "کلچرل پیکیج" ہوتی ہے۔

آپ اردو پڑھنے اور پڑھانے والوں سے ملیں، ان کے ساتھ بیٹھیں، انھیں پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کے نزدیک تہذیب کا آغاز ہی لکھنؤ سے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے یہ پورا خطہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ ترقی پسند تحریک بھی پورے برصغیر میں یہیں سے شروع ہوئی، باقی سب رجعت پرست تھے۔ (حالاں کہ ہمارے ہاں 1920 میں شروع ہو چکی تھی)۔ رومانیت سے جدیدیت تک اس خطے میں ساری تحریکیں اردو کی دَین ہیں۔

یوں اردو لٹریچر پڑھنے والے سب سے پہلے اپنی جڑوں سے کٹ جاتے ہیں۔ یہ کام سب سے پہلے اور سب سے زیادہ پنجابی میں ہوا۔ پنجابی ادیبوں نے زبان کی اس کلچرل استعماریت کے سامنے سرنڈر کیا۔ اردو کو بجائے محض میڈیم استعمال کرنے کے، اس کی ثقافتی اجارہ داری کو بھی فخریہ قبول کیا۔ صدشکر کہ باقی خطوں میں یہ صورت حال مختلف رہی۔ ہماری زبانوں اور ہمارے خطوں کے اکابرین نے اردو کو بہ طور میڈیم تو قبول کیا لیکن فکری طور پر وہ اپنے خطے اور عوام سے جڑے رہے۔ یوں بلوچستان میں اردو میں جتنا ادب لکھا گیا، وہ مقامیت کا عکاس رہا۔

البتہ اس میں ایک استنثنیٰ موجود ہے۔ بالخصوص وہ لوگ جو باہر سے تشریف لائے، انھوں نے زبان کی اس ثقافتی اجارہ داری کو جاری رکھا۔ بعدازاں ریاست نے بھی نصاب کے ذریعے اس اجارہ داری کو فروغ دیا۔ اردو کے نصاب میں ہندوستان سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کا ذکر تو ملے گا، بلوچستان کے کسی مقامی رہنما کا کوئی ذکر نہیں۔ پہلی جماعت سے لے کر بارھویں جماعت تک چاکر سے لے کر نوری نصیر خان تک، شہ مرید و ہانی سے لے کر مہناز تک، یوسف عزیز لے کر گل خان نصیر و عطاشاد تک مقامیت کا کوئی شائبہ تک نہیں۔

یوں محض نصاب کو ہی حتمی سچائی مان کر پڑھنے والے اردو ریڈرز اس گمراہی کا شکار رہتے ہیں کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ اردو کی دین ہے (اور اردو سے مراد ہے دلی و لکھنؤ، یا یوپی و سی پی)۔ بالخصوص اردو میں گریجویشن کرنے والے اس گمراہی کا سب سے زیادہ شکار رہتے ہیں۔ اردو سے ہمارے ہاں جتنی سیاسی مخاصمتیں ہیں، اس کا سبب یہی ثقافتی اجارہ داری ہے۔ جس کا سبب درحقیقت زبان نہیں، زبان کو استحصال کا ذریعہ بنانے والے طبقات ہیں۔

الغرض، اردو کا "کلچرل پیکج" بدلنے کی ضرورت ہے۔

یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مقامیت کو ترجیح دیئے بغیر اردو کی جڑیں عوام میں گہری نہیں ہو سکتیں۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari