Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mir
  4. Sheetal Aur Zarak Kon Hain?

Sheetal Aur Zarak Kon Hain?

شیتل اور زرک کون ہیں؟

یہ کوئی دس سال پہلے کی بات ہے۔ جب بلوچستان میں فیک آئی ڈیز کی ہوا چل رہی تھی۔ میرے پروفائل پہ انھوں نے ادھم مچایا ہوا تھا۔ ان میں ایک آئی ڈی زرک میر کے نام سے تھی۔ اس کا میری وال پہ پہلا کمنٹ آج بھی مجھے یاد ہے کہ "کل عابد میر فاطمہ جناح روڈ پہ میرے موٹرسائیکل سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔۔ " اور پھر آگے کوئی طنزیہ بات کی ہوئی تھی۔ میں اُن دنوں اِن ساری فیک آئی ڈیز کو اپنا بھائی، دوست سمجھ کر خوب بحثیں کرتا تھا، باتیں کرتا تھا۔ انہوں نے ہمیں دشمن حتیٰ کہ ایجنٹ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ بالآخر مجھے زچ ہو کر ایک ڈیڑھ برس بعد اپنی آئی ڈی ہی تلف کرنی پڑی۔

نیا پروفائل بنایا تو چن چن کر فیک آئی ڈیز والوں کو بلاک کیا۔ حتیٰ کہ جذبات میں آ کر یہ اعلان بھی کیا کہ جو ان فیک آئی ڈیز سے دوستی رکھے، وہ مجھے ایڈ نہ کرے بلکہ میری فرینڈ لسٹ میں جو ان کا ہمدرد نظر آیا، میں اسے انفرینڈ کر دوں گا اور اس چکر میں درجنوں جان پہچان کے دوست انفرینڈ کیے بھی۔

پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ ایک تو فیک آئی ڈیز کی گرد بیٹھنے لگی، کچھ لوگ بھی ان کی حرکتوں سے آگاہ ہونے لگے کہ ان کا مقصد بس کسی طرح میلہ جمائے رکھنا ہے اور پھر ان کی اصل شناخت بھی سامنے آنے لگی۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ اصل شناخت سامنے آتے ہی ان کے ڈنک نکل گئے۔ سب اپنے اپنے کونوں کھدروں میں گھس گئے۔ کسی نے معافی تلافی کی، کسی نے واسطہ دیا کہ ہمارا نام نہ لیا جائے، کوئی خاموشی سے کھسک کیا۔ کوئی "چیئرمین" بن کر اپنی اوقات میں آ گیا۔

زرک میر کو شاید اپنی ناانصافی کا احساس ہوا۔ کچھ سال پہلے جب پاکستانی لبرلز میرے خلاف ایک خوف ناک مہم چلا رہے تھے اور اس میں کئی "دوست" بھی شامل ہو گئے تھے، اس نے میرے کچھ دوستوں کو پیغام بھیجا کہ عابد کے ساتھ بھلے ہمارے اختلاف ہوں لیکن یہ اس کے ساتھ ناجائز ہو رہا ہے، ہم بھلے بلاک ہوں مگر اسے پیغام دینا کہ میں اس کے ساتھ ہوں۔

تب تک اس فیک آئی ڈی کی شناخت واضح ہو چکی تھی۔ یہ ہمارا "آساپ" کے دنوں کا ایک ہم عصر لکھاری ہوا کرتا تھا۔ اس کے اور منظور بلوچ صاحب کے کالم نوجوانوں میں شوق سے پڑھے جاتے تھے۔ بل کہ ان کی فرمائش ہوتی تھی کہ ان کا کالم سنڈے کو نہ چھاپا جائے کیوں کہ یونیورسٹی بند ہوتی ہے اور ان کے ٹارگٹڈ ریڈرز یونیورسٹی کے طلبا، خصوصاً بی ایس او کے نوجوان ہوا کرتے تھے۔

حالاں کہ کالم وہ ہمیشہ اپنے نام سے لکھتا تھا لیکن فیس بک پر اس نے اپنی شناخت کیوں چھپائی؟ یہ مجھے سمجھ نہیں آیا اور ہم جیسے بے ضرر لوگوں سے مخالفت کیوں پالی؟ یہ تو کبھی سمجھ نہ آیا۔ حالاں کہ خود مجھے اس کی طنزیہ تحریریں پسند تھیں اور مجھے یاد ہے میں "ایکسپریس" میں کالم لکھتا تھا، ایک بار بلوچستان کے نئے لکھنے والوں پہ کالم لکھا تو اس کا باقاعدہ نام لے کر تعریف کی۔

خیر، اسے اپنی یہ فیک شناخت اس قدر راس آئی کہ اس نے اسی نام سے پہلے اپنی یادداشتیں لکھیں پھر افسانوں اور مضامین کی کتاب بھی چھاپی۔ یادداشتیں پھر "شال کی یادیں" کے نام سے کتابی صورت میں چھپیں۔ پوشیدہ شناخت کے باعث ظاہر ہے اس نے اِس میں کچھ ردوبدل کیا۔ کچھ افسانے بھی گھڑے۔ انہی میں ایک محبت کا فرضی قصہ ہے، جس میں محبوبہ کا نام شیتل رکھا گیا ہے۔ میں نے کتاب پڑھ کر بات اس لیے بھی نہیں کی کہ ہم سوشل میڈیا سے ایک عرصے سے قطع تعلق ہیں، اس لیے میرے تبصرے میں کہیں کوئی جانبداری یا انصافی کا کوئی پہلو نہ آ جائے۔ اب اس نے شاید نئی آئی ڈی بنائی ہے تو کہیں نظر آ گئی۔

خیر، ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ دس سال بعد زرک میر مجھ سے سرِراہ ٹکرا گیا۔ میں بازار میں کتابوں کی ایک دکان پہ گیا ہوا تھا۔ اس کی کتاب کا نیا اضافہ شدہ ایڈیشن بھی رکھا ہوا تھا، میں نے ساتھ رکھ لیا۔ دکان سے نکلا ہی تھا کہ سامنے ایک جوان ٹکرایا۔ میرا نام لے کر ملا۔ میں نے نہیں پہچانا تو اس نے اپنے "اصل نام" کے ساتھ تعارف کروایا اور بڑی اپنائیت اور چاہ سے کہا، آپ کو تو ہم بہت شوق سے پڑھتے ہیں، کبھی ہمیں وقت دیں، ہمارے ساتھ چائے پیئں۔ میں نے ہاتھ میں پکڑے شاپر سے اس کے قلمی نام والی کتاب اسے دکھاتے ہوئے کہا، میں بھی آپ کی کتاب پڑھتا ہوں بھئی اور خرید کر پڑھتا ہوں۔ وہ شریف آدمی جھینپ سا گیا۔

ڈیگاری واقعے پہ کل اولین تحریر اسی کی وائرل ہوئی۔ جس میں اس نے علامتی طور پر مرنے والی کو اپنی محبوبہ شیتل سے اور مرنے والے کو زرک سے تشبیہ دی۔ پاکستانی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس نے بنا پڑھے، غور کیے تحریر چاٹ لی، نام رٹ لیے اور ایک فقرہ اچک لیا۔ یوں دو خیالی کردار "شیتل اور زرک" پاکستانی سوشل میڈیا ایکٹوسٹس، حتیٰ کہ بعض لکھاریوں اور دانشوروں کے لیے بھی حقیقی کردار بن گئے۔

اب تک تو خیر واقعے کی خاصی تفصیلات اور کرداروں کے اصل نام بھی سامنے آ چکے ہیں لیکن ٹرینڈز کے مارے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس میں سے وللہ کہ کوئی اپنی غلط تسلیم کرے اور اسے درست کرے۔ مگر خیر، اپنی غلطی سے بھلا کس رُوسیاہ کو غرض ہے۔

"ہم طالبِ شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام!"

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali