Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mir
  4. Qaumi Nisab Mein Qaumi Zubanon Ka Hissa

Qaumi Nisab Mein Qaumi Zubanon Ka Hissa

قومی نصاب میں "قومی زبانوں" کا حصہ

ایک طویل عرصے کی جدوجہد کے بعد پاکستان میں اب کم از کم چار، پانچ بڑی زبانوں کو قومی زبانیں تسلیم کر لیا گیا ہے۔ دیگر اہم زبانوں کو بھی اب علاقائی زبانوں جیسے تحقیر آمیز لقب کی بجائے پاکستانی زبانیں کہا جانے لگا ہے۔

اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں تعلیم صوبائی سبجیکٹ ہو چکا تھا۔ لیکن ہر چیز میں "مرکزیت" کے خواہاں طاقتوروں سے یہ صدمہ برداشت نہ ہوا تو 2020 میں یکساں قومی نصاب کا ڈول ڈالا گیا۔ قومی نصاب کونسل کا ادارہ بنایا گیا جو پورے پاکستان کے لیے یکساں نصاب تشکیل دیتا ہے۔ صوبائی اکائیوں کی نمائندگی کے لیے ہر صوبے سے ایک دو نمائندے لیے گئے اور برابری کا تاثر دینے کے لیے میٹرک تا انٹر لیول کی اردو کتب میں ہر صوبائی اکائی سے ایک آدھ ادیب اور ادب پارے کو نصاب میں شامل کیا گیا۔

نویں جماعت کے نصاب میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے پشتو اور اردو کے معروف ادیب فاروق سرور کا افسانہ "بھیڑیا" شامل کیا گیا ہے۔ یہ بلاشبہ ایک شاندار علامتی افسانہ ہے۔ لیکن جس سطح کا یہ افسانہ ہے، نویں جماعت کی بجائے یہ انٹرمیڈیٹ میں فرسٹ ایئر یا سیکنڈ ایئر میں شامل ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اسی کتاب کے شعری حصے میں شاہ لطیف کا، شیخ ایاز کا ترجمہ کردہ کچھ حمدیہ کلام شامل کیا گیا ہے۔

دسویں جماعت کی کتاب میں شفیع عقیل کی مرتب کردہ کتاب سے پنجابی کا ایک لوک قصہ "چغل خور" کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ یہ نسبتاً بہتر انتخاب ہے۔ اس کتاب کے شعری حصے میں کسی قومی زبان کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ بہتر ہوتا کہ اس میں بلوچی/براہوی سے کوئی کلام شامل کیا جاتا۔

گیارھویں جماعت کی کتاب میں سندھی ادب سے امر جلیل کا افسانہ "تاریخ کا کفن" شامل کیا گیا ہے۔ یہ ایک زبردست انتخاب ہے۔ اسی حصے میں پشتو سے رحمان بابا کا منتخب کلام شامل کیا گیا ہے اور یہ بھی مناسب انتخاب ہے۔

بارھویں جماعت کی کتاب میں بلوچی سے غوث بہار کا افسانہ "محشر" شامل کیا گیا ہے۔ اسے بھی اچھا انتخاب کہا جا سکتا ہے۔ اسی کتاب میں براہوی ادب سے لوک داستان "بہادر خان کی سرگزشت" کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ مزاح کے ساتھ ساتھ بالواسطہ طور پر نسائی شعور کی حامل اچھی کہانی ہے۔ لیکن یہ میٹرک میں رکھی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس کتاب کے شعری حصے میں بھی قومی زبانوں کی نمائندگی شامل نہیں۔ یہاں پنجابی/سرائیکی ادب کا انتخاب شامل کیا جا سکتا تھا۔

الغرض "یکساں قومی نصاب" میں قوموں کی نمائندگی اب بھی ناپید ہے۔ حالاں کہ اس سطح پر یہ کام بہت آسانی سے ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر حمد اور نعت میں سے ایک کلام کسی مقامی شاعر کا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح حصہ غزل میں میر تقی میر اور غالب میٹرک میں بھی شامل ہیں اور انٹرمیڈیٹ میں بھی۔ "حاصلاتِ تعلم" کے مطابق اس حصے کی تدریس کا بنیادی مقصد طلبہ کو شعر و ادب کے بنیادی لوازم سے آگاہی دینا ہے تو وہ کیا محض میر و غالب کے کلام کے ذریعے ہی ممکن ہے؟ ایک کلاس میں میر و غالب کو رکھیے، ساتھ میں مقامی شعرا کو بھی نمائندگی دیں۔ یہی فارمولا تمام اصناف کی پیش کش میں ہونا چاہیے۔

اس سے "قومی یکجہتی" میں اضافہ ہی ہوگا، کمی نہیں ہوگی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan