Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Abid Mir
  4. Balochistan Ki Ghairat Phir Khatre Mein Hai

Balochistan Ki Ghairat Phir Khatre Mein Hai

بلوچ سماج کی غیرت پھر خطرے میں ہے

پشوکان، گوادر کے نواح میں واقعہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ وہاں کی ایک نوجوان آرٹسٹ طالبہ نے ایک پینٹنگ بنائی ہے جو اس کے بقول اس نے عزت و مہرک کے رومانوی قصے کے ایک واقعہ سے متاثر ہو کر بنائی۔ یہ پینٹنگ، آرٹ کی ایک فارم "نیوڈٹی" سے منسلک ہے۔ سو اس پہ بلوچ رجعت پرست و کٹر قسم کے قوم پرست حملہ آور ہیں۔ گزشتہ دو دنوں سے اس کی شدید ٹرولنگ کی جا رہی ہے، فتوے دیئے جا رہے ہیں اور بلوچ سماج کی تباہی کے نوحے پڑھے جا رہے ہیں۔

عزت و مہرک پنجگور کی ایک کلاسیکی رومانوی داستان ہے۔ اس داستان کے آغاز کا ایک واقعہ ہے کہ مہرک اپنی سہیلیوں کے ساتھ قصبے کی ندی پر نہانے نکلی۔ وہ اپنا لباس اتار کر نہانے لگی اور دیگر سہیلیاں ابھی آس پاس ہی منڈلا رہی تھیں کہ اتنے میں ایک قافلہ وہاں آ پہنچا۔ باقی لڑکیاں قافلہ دیکھ کر یہاں وہاں ہوگئیں، مہرک بے لباس ہونے کی وجہ سے کہیں نکل نہیں سکتی تھی، ایسے میں اس نے بے بسی سے اپنے لمبے گھنے سیاہ بالوں سے اپنے جسم کو ڈھک لیا۔ قافلے والوں نے اس کے حسن کا جو نظارہ دیکھا تو انگشت بدنداں رہ گئے۔ وہ خاموشی سے وہاں سے گزر گئے۔ بعدازاں قصبے والوں سے ذکر کیا تو پتہ چلا کہ وہ مہرک ہے جو مورنی جیسی حسین ہے۔ یوں اس کے حسن کے قصے چہاردانگ عالم مشہور ہوئے۔ (میری چھوٹی بیٹی کا نام اسی قصے کی نسبت سے شاہ محمد مری صاحب نے مہرک رکھا)۔

آرٹسٹ لڑکی کا کہنا ہے کہ اس نے یہ پینٹنگ اسی قصے سے متاثر ہو کر بنائی۔ مخالفین کا اعتراض ہے کہ بلوچ سماج میں کبھی عورتیں اس طرح بے لباس ہو کر ندی پہ نہیں نہاتیں، اور بالفرض ایسا ہو بھی تو اس کی تصویرکشی کسی صورت جائز نہیں۔ یہ بلوچ غیرت کو ننگا کرنے جیسا ہے۔ اس لیے آرٹسٹ کو یہ تصویر ضائع کرکے معافی مانگنی چاہیے۔ وغیرہ وغیرہ۔

جب کہ میرا اس تصویر پر ایک اور اعتراض ہے۔

میرا خیال ہے کہ ایک اچھا پیس آف آرٹ ہونے کے باوجود یہ تصویر مہرک کے قصے سے میل نہیں کھاتی۔ تصویر میں جس طرح مہرک کو کھڑے ہو کر ندی میں نہاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، ایسا واقعی بعیدازقیاس ہے۔ لڑکیاں ندی میں بیٹھ کر نہاتی ہیں، کھڑے ہو کر نہیں اور ایسا نہایت احتیاط سے کیا جاتا ہے تاکہ واقعی اس طرف کسی آنے والے کی بھی نظر نہ پڑے، کوئی غلطی سے آ جائے تو خود کو فوری طور پر ڈھانپا جا سکے۔ مہرک کی دراز زلفیں مشہور تھیں۔ اس نے قافلے کا سن کر خود کو ان سے ڈھانپ لیا۔ قصے میں جب ہم یہ سنتے یا پڑھتے ہیں تو ذہن میں ایسی ہی ایک بے بس لڑکی کی تصویر ابھرتی ہے۔ جب کہ مذکورہ پینٹنگ میں لڑکی کو نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ بے لباس کھڑے ہو کر نہاتے دکھایا گیا ہے، جو کسی جدید شہری علاقے کا عکس لگتا ہے۔ اگر مذکورہ واقعے کی نسبت سے اسے پینٹ کیا جاتا تو اس میں نیوڈٹی کا عنصر کم ہوتا، جمالیات زیادہ ہوتی اور شاید ردِعمل بھی اتنا شدید نہ ہوتا۔

اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک اچھا پیس آف آرٹ ہے۔ اگرچہ اس میں حقائق کی غلطیاں ہیں جو کہ سولہ سترہ سال کی آرٹسٹ بچی سے ہونا کوئی بعیدازامکان نہیں تو اس پہ بھڑکنے کی بجائے اس بچی کو یہ بات سمجھائی جا سکتی ہے۔ اسے بتایا جا سکتا ہے کہ اصل قصے میں اور اس کے آرٹ ورک میں کیا فرق ہے۔ "نیوڈٹی" ایک فارم آف آرٹ ہے۔ ہم سب پورن دیکھتے ہیں، اسے انجوائے کرتے ہیں لیکن آرٹ کی نیوڈٹی ہمیں فحش لگتی ہے اور بالخصوص اگر اس میں بلوچ کا ذکر ہو تو یکدم ہماری رگِ حمیت پھڑک اٹھتی ہے۔

ایک زمانے میں زرینہ مری کا کیس مشہور ہوا تھا، جسے ٹارچر سیل میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ میرانی ڈیم ٹوٹا تو میں تربت گیا، اس کے نواح میں کئی بلوچ جھگیوں سے وردی پوشوں کو نکلتے دیکھا۔ پچھلی ایک دہائی میں کئی بلوچ خواتین کو اٹھایا گیا، ٹارچر سیلوں میں خداجانے ان کے ساتھ کیا کیا سلوک ہوتا رہا۔ ہماری جوان عورتیں، بچیاں آج بھی سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ خدا جانے یہ غیرت تب کہاں چلی جاتی ہے؟!

ایک معمولی تصویر پہ غیرت نکالنے کی بجائے اپنے وطن کے لیے غیرت مند بنیں اور اگر غیرت بہت زیادہ طاری ہو تو اپنے گھر کی عورتوں کی طرف ہی دیکھ لیں کہ آپ نے ان کے کتنے حقوق ادا کر رکھے ہیں!

ٹھنڈا پانی پئیں اور تسلی رکھیں، بلوچ غیرت ایسی گئی گزری بھی نہیں کہ ایک تصویر اسے کھا جائے گی!

Check Also

Boxing Ki Dunya Ka Boorha Sher

By Javed Ayaz Khan